قسط31
اسلامی تاریخ کے وہ بڑے ہی سنہرے ادوار تھے جب مختلف شہروں میں محدثین کے علمی حلقات اپنی رونق اور بہار دکھلایا کرتے تھے۔ اساتذہ کرام حدیث پڑھانے بیٹھتے تو ان کے ارد گرد شاگرد اس طرح بیٹھتے جس طرح چاند کے گرد ہالہ ہو۔ یوں تو ہزاروں کی تعداد میں ایسی شخصیات گزری ہیں، جن کے علم حدیث سیکھنے کے لئے اسفار کے احوال بیان کیے گئے ہیں، مگر یہاں چند شخصیات کے بارے میں ہی گفتگو کریں گے کہ انہوں نے حصول علم حدیث کے لئے کتنے سفر اختیار کیے اور کتنی مشقتیں برداشت کیں۔
امام التابعین سیدنا سعید بن المسیبؒ فرماتے ہیں: میں ایک حدیث کو حاصل کرنے کے لئے کئی کئی دن اور راتیں سفر میں گزارتا تھا۔ محمد بن ابی حاتمؒ امام بخاریؒ کے شاگردوں میں سے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: میں آدم بن ابی ایاسؒ کے پاس علم حاصل کرنے کے لئے گیا۔ راستہ میں میرے پاس نان و نفقہ ختم ہو گیا تو اپنے پیٹ کے ایندھن کو بجھانے کے لئے میں نے گھاس کھانا شروع کر دی۔
غیرت اس چیز کا نام ہے کہ انہوں نے کسی کو بتایا نہیں کہ وہ کون ہیں، کہاں اور کس کے پاس جا رہے ہیں؟! اس دور میں کتنے ہی مالدار لوگ ایسے تھے جو طلبہ کی مدد کرنے کے لئے تیار رہتے تھے، مگر طلبہ کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانا علماء کے وقار کے منافی سمجھتے تھے۔ حق تعالیٰ اپنے خاص بندوں کی مدد کرتا ہے۔
محمد بن ابی حاتمؒ فرماتے ہیں: جب تیسرا دن ہوا تو ایک شخص میرے پاس آیا۔ میں اسے بالکل نہیں جانتا تھا۔ اس کے پاس دیناروں سے بھری ہوئی تھیلی تھی۔ اس نے تھیلی مجھے یہ کہتے ہوئے پکڑا دی کہ اسے اپنی ذات پر خرچ کر لینا۔
امام حافظ محمد بن طاہر مقدسیؒ نے بھی علم حاصل کرنے کیلئے کتنے ہی سفر کیے۔ فرماتے ہیں: حدیث کا علم سیکھنے کیلئے دوران سفر2 مرتبہ ایسا ہوا کہ میرے قدموں سے خون بہنے لگا۔ ایک مرتبہ بغداد کا سفر کرتے ہوئے اور دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ کے سفر کے دوران اس قسم کا معاملہ پیش آیا۔ ان کا جوتا ٹوٹ گیا، مگر انہوں نے ننگے پائوں سفر جاری رکھا۔ فرماتے ہیں: موسم شدید گرم تھا۔ پتھر گرم تھے، اب ننگے پائوں چل رہے ہیں تو ان کے قدموں میں ورم آ گیا اور خون بہنا شروع ہو گیا۔
فرماتے ہیں: کئی مرتبہ ایسا ہوا کہ مجھے سواری تک میسرنہیں تھی، لیکن اس کے باوجود میں سفر کرتا رہتا تھا۔ اس دوران ہمیشہ اپنی کتابوں کو اپنی پیٹھ پر لاد کر سفر کرتا تھا۔ میں نے زمانہ طالب علمی میں کسی شخص سے مالی امداد طلب نہیں کی۔ میری آمدن کا ذریعہ بعض مخیر حضرات کی طرف سے ملنے والے عطیات تھے جو مانگے بغیر وہ مجھے عطا کر دیا کرتے تھے۔
محدثین کرام نے بعض اوقات معمولی باتیں سمجھنے کے لئے یہاں تک کہ محض ایک حرف سیکھنے کے لئے سفر اختیار کیے۔ چنانچہ مسروق بن اجدعؒ اور ابو سعیدؒ نے ایک مرتبہ محض ایک حرف سیکھنے کے لئے سفر کیا۔ عامر بن شَراحیل شعبیؒ کبار تابعین میں سے تھے۔ ایک مرتبہ انہوں نے کوفہ سے مکہ تک صرف 3 احادیث کی سماعت کے لئے سفر کیا۔ کوفہ میں کسی نے ان سے 3 احادیث بیان کیں۔ اب ان کی خواہش تھی کہ انہیں کوئی ایسا صحابیؓ مل جائے، جنہیں ان احادیث کے بارے میں علم ہو اور وہ ان سے براہ راست سن سکیں۔
امام شعبیؒ کو یقینا کسی نے بتایا ہو گا کہ مکہ مکرمہ میں وہ اصحاب موجود ہیں، جن سے ان احادیث کی روایت کی گئی ہے تو وہ کوفہ سے مکہ مکرمہ تک کا سفر اختیار کرتے ہیں۔ ذرا غور کیجیے کہ اس سفر میں ان کو کم و بیش ایک ماہ تو لگ ہی گیا ہو گا۔ یہ ہے علم کا شوق اور ہمارے سلف صالحین کی علم حدیث سے محبت کا ایک انداز۔ آج کے دور میں اگر کسی کو کہا جائے کہ جائو ہوائی جہاز سے سفر کرو اور فلاں شخص سے صرف 3 احادیث سیکھ کر آئو تو آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اس کا جواب کیا ہو گا۔ آپ اسے ٹکٹ بھی پیش کریں، مگر وہ انکار کر دے گا۔ ائمہ کرام پر حق تعالیٰ کی کروڑوں رحمتیں ہوں۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post