بین الاقوامی مالیاتی فنڈ المعروف آئی ایم ایف وہ سود خور عالمی مالیاتی ادارہ ہے، جو پس ماندہ اور ترقی پذیر ممالک کو سخت شرائط پر قرضے دے کر انہیں صرف اقتصادی طور پر اپنے شکنجے میں نہیں کستا، بلکہ اس کے پیچھے امریکا کے احکام بطور مطالبات ہوتے ہیں۔ اس کے قرضے بظاہر متعلقہ یا مقروض ملک کی معیشت میں اصلاح اور بہتری کے نام پر پیش کئے جاتے ہیں، لیکن ان کا اصل مقصد اس ملک کے خراب معاشی حالات اور اقتصادی بحران سے فائدہ اٹھا کر اسے اس قدر مقروض کردینا ہوتا ہے، کہ وہ بالآخر قرضوں کی قسطیں اور سود ادا کرنے کے لئے مزید قرضے لینے پر مجبور ہوتا ہے۔ ان قرضوں کے پیچھے جو سیاسی مقاصد کار فرما ہوتے ہیں، انہیں نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔پاکستان میں قرضوں کا سب سے زیادہ منفی پہلو یہ ہے کہ انہیں ترقیاتی کاموں اور عوام کی فلاح و بہبود کے لئے استعمال نہیں کیا جاتا، بلکہ بیشتر رقوم بالا ہی بالا مقتدر و متمول طبقوں میں بندر بانٹ کی نذر ہو جاتی ہیں۔ لیکن قرضوں کی ادائیگی کا سارا بوجھ ٹیکسوں اور مہنگائی کی صورت میں غریب عوام کی جانب منتقل کردیا جاتا ہے۔ جس ملک کی حکومتیں اپنی قدیم اور تاریخی عمارتیں، بندرگاہیں، ائیر پورٹس اور اہم شاہراہوں کو گروی رکھ کر قرضے حاصل کریں اور جنہیں ادا کرنے کی نیت بھی نہ ہو تو اس کی آزادی و خود مختاری کب تک قائم رہ سکتی ہے؟ تحریک انصاف نے اقتدار میں آنے سے پہلے آئی ایم ایف جیسے اداروں کے قرضوں کو ملک کے لئے ناپسندیدہ قرار دیتے ہوئے اس عزم کا اظہار کیا تھا کہ وہ وطن عزیز میں موجود بیش بہا وسائل کو استعمال کرکے اور دوست ملکوں کے تعاون سے اقتصادی بحران پر قابو پالے گی۔ اس کے علاوہ مالی مشکلات کو کنٹرول کرنے کا ایک بڑا ذریعہ یہ بنایا گیا کہ سابقہ حکمرانوں، نوکر شاہی کے کل پرزوں اور اعلیٰ حلقوں میں اثر و رسوخ کے حامل افراد اور خاندانوں سے ملک کی لوٹی رقوم واپس لے کر قومی خزانے کو مالا مال کر دیا جائے گا۔ یہ رقوم اتنی زیادہ ہیں کہ نیک نیتی اور ٹھوس اقدامات کے ذریعے فی الواقع حاصل کرلی جائیں تو وطن عزیز نہ صرف تمام قرضوں کے بوجھ سے نجات حاصل کرلے گا، بلکہ عوام کے تمام دیرینہ مسائل حل کرکے ترقی و خوشحالی کے راہ پر گامزن ہو سکتا ہے۔ تحریک انصاف کی حکومت نے لوگوں کو یہ تمام سنہری خواب دکھائے، لیکن چار ماہ کے عرصے میں اس جانب معمولی پیش رفت بھی نظر نہیں آئی۔ اس کی بنیادی وجہ ایک ہی ہے کہ ملک میں سابقہ و حالیہ حکمرانوں اور سیاستدانوں کا ایک کارٹیل بنا ہوا ہے، جو ایک دوسرے کے مفادات کی نگرانی کرتا ہے، خواہ اقتدار کی کرسی پر کوئی بھی براجمان ہو۔
تحریک انصاف میں دولت مندوں کا جو ٹولا موجود ہے، ان سب کی جائیدادیں اور اثاثے قانونی طور پر جائز نہیں ہو سکتیں۔ ان کی پکڑ کے خوف سے حکمران طبقے سے تعلق رکھنے والے اکثر افراد احتساب سے بچے ہوئے ہیں۔ پھر یہ کہ حکومت اور اس کے اداروں نے جو رقوم وصول کرکے قومی خزانے میں جمع کرانے کے دعوے کئے ہیں، وہ اگر درست ہیں تو اس دولت کا ملک یا قوم کو پہنچنے والا رتی برابر فائدہ بھی اب تک سامنے نہیں آیا ہے۔ الٹا بڑے فخر سے کہا جا رہا ہے کہ ہم نے آئی ایم ایف سے حتمی مذاکرات سے قبل ہی اس کی تمام کڑی شرائط مان کر عمل درآمد بھی شروع کر دیا ہے۔ ان شرائط میں امریکی ڈالر کی قیمت ایک سو چالیس روپے تک بڑھا کر ملکی کرنسی کو بے آبرو کرنا، بجلی، گیس، پیٹرولیم مصنوعات اور روزمرہ ضرورت کی اشیا کے نرخ یومیہ بنیاد پر بڑھانا اور ٹیکسوں میں اضافے جیسے عوام دشمن اقدامات شامل ہیں۔ یہ کہنا کہ قرضوں کا بوجھ بڑھ جائے اور مہنگائی میں اضافے کی ذمے دار سابقہ حکومتیں ہیں، کسی ایسی حکومت کو زیب نہیں دیتا جو تبدیلی اور نئے فلاحی پاکستان کے دعوے کرکے برسر اقتدار آئی ہو۔ نئی حکومت اگر سابقہ خرابیوں کو دور کرنے کے لئے کوئی مثبت اقدام کے قابل نہیں تھی تو وہ قرضوں، مہنگائی اور ٹیکسوں کے بوجھ میں اضافہ بھی نہ کرتی۔ قومی لٹیروں سے رقوم واپس لانے میں ناکام، دوست ملکوں کی مدد سے مایوس اور ملکی وسائل کے استعمال کی صلاحیتوں سے محروم تحریک انصاف کی حکومت سو جوتے اور سو پیاز کھانے کے بعد اپنے وعدوں اور دعوئوں کے برعکس اب بھی آئی ایم ایف کے در پر جا کر سر جھکانے کے لئے آمادہ ہے۔ آئی ایم ایف نے پاکستانی حکومت کی جانب سے اپنی شرائط پہلے ہی تسلیم کرلینے کے باوجود مزید مطالبات پیش کر دیئے ہیں، جن میں اہم ترین یہ ہے کہ دفاعی یا ترقیاتی اخراجات میں کمی کی جائے۔ پاکستان کے دفاعی بجٹ میں کمی کا دشمن قوتیں ہمیشہ مطالبہ کرتی رہتی ہیں، جس کا واضح مقصد بھارت کے مقابلے میں پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم رکھنا ہے۔ باقی رہے ترقیاتی اخراجات تو ان میں امداد اور قرضوں کی رقم کب استعال ہوتی ہے کہ آئی ایم ایف اسے کم کرنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ذرائع کے مطابق پاکستان نے آئی ایم ایف کے چار میں سے دو مطالبات کو تسلیم کرلیا ہے۔ ان میں بجلی مزید مہنگی کرکے مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ کرنا اہم ترین ہے، جس کے نتیجے میں آنے والا مہنگائی کا مزید اور شدید طوفان غریب عوام کی چیخیں نکال دے گا۔ ایک خدشہ یہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ آئی ایم ایف کے مطالبے پر امریکی ڈالر کو ایک سو پچاس پاکستانی روپوں کے برابر کر دیا جائے گا۔ اس کے بعد درآمدی اشیا کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے کے علاوہ قومی خزانے کو ناقابل برداشت بوجھ اٹھانا پڑے گا اور ادائیگیوں کا سارا توازن بگڑ جائے گا۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کامیاب ہوں یا نہ ہوں، اس کی شرائط پیشگی تسلیم کرکے گھٹنے ٹیکنے بلکہ لیٹ جانے والی حکومت اپنی بدترین اقتصادی پالیسی کا اظہار کر چکی ہے۔ اب فلاحی ریاست سمیت اس کے کسی وعدے پر اعتبار کرنے کی کیا بنیاد باقی بچتی ہے؟ ٭
Prev Post