قسط نمبر32
علامہ اسحاق بن منصور مروزیؒ:
آپؒ نیشاپور کے رہنے والے تھے۔ نیشا پور ایران کے شمال مشرق میں واقع ہے۔ ان کے بارے میں سیرت نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ ایک مدت تک امام احمد بن حنبلؒ کے پاس رہے۔ ان کے بیان کردہ فقہی مسائل کو اپنی کتاب میں قلم بند کرتے رہے۔ ایک وقت آیا کہ یہ اپنے وطن نیشاپور واپس چلے گئے۔ اس دوران انہوں نے جو مسائل قلمبند کیے تھے، اپنے ساتھ لے گئے۔ کچھ عرصے بعد انہیں معلوم ہوا کہ امام احمد بن حنبلؒ نے کتنے ہی مسائل سے رجوع کر لیا ہے۔ علامہ اسحاقؒ نے اس کتاب اور دیگر کتب کو ایک گٹھڑی میں باندھا، اسے اپنی پشت پر رکھا اور پیدل ہی بغداد کی طرف چل دیئے۔
بغداد پہنچ کر انہوں نے امام احمد بن حنبلؒ سے ملاقات کی۔ انہیں اپنی کتاب میں لکھے ہوئے مسائل سے آگاہ کیا اور کہا: کچھ عرصہ پہلے آپ نے ان مسائل میں یہ فتاویٰ جاری کیے تھے، اب آپ کا فتویٰ کیا ہے؟ امام احمد بن حنبلؒ نے اقرار کیا کہ ہاں میں نے واقعی پہلے ان مسائل میں یہ فتاویٰ دیئے تھے۔ اب جبکہ میرے پاس مزید تحقیق اور علم آگیا ہے، صحیح احادیث مل گئی ہیں تو میں نے اپنے سابقہ فتاویٰ سے رجوع کر کے نئے فتاویٰ دیئے ہیں۔
امام اسحاق بن منصورؒ نے نئے فتاویٰ کو قلم بند کیا اور اپنے وطن واپس چلے گئے۔ امام احمد بن حنبلؒ نے اپنے اس شاگرد کی جانب سے اس نیک مقصد کے لئے سفر کی صعوبتیں برداشت کرنے پر تعجب اور مسرت کا اظہار کیا تھا۔
ابو العالیہؒ کہتے ہیں: جب ہم کسی شخص سے رسول اقدسؐ کے صحابیؓ سے روایت کردہ کسی حدیث کی سماعت کرتے تو ہم سواری پر بیٹھتے اور ان صحابیؓ کے ہاں پہنچ کر ان سے ملاقات کرتے۔ ہم صحابیؓ کی زبان سے وہ حدیث براہ راست سنتے۔ ان کے الفاظ پر غور کیجیے، فرماتے ہیں: ’’ہمیں اس وقت تک چین نہ آتا جب تک سواریوں پر بیٹھ کر ان صحابیؓ کے پاس پہنچ نہ جاتے اور براہ راست ان سے حدیث کی سماعت نہ کر لیتے۔
ابان بن ابی عیاشؒبصرہ کے رہنے والے تھے۔ انہوں نے ایک حدیث بیان کی جسے ابو معشر کو فیؒ نے سنا۔ محدثین کی حدیث کے ساتھ محبت کا تقاضا بھی تھا اور اس کی تصحیح کے لئے بھی وہ ضروری سمجھتے تھے کہ راوی حدیث سے براہ راست حدیث کو سنا جائے۔ ابو معشر کوفی کوفہ سے بصرہ کا سفر کرتے ہیں۔ کم و بیش 350کلو میٹر کا سفر طے کر کے بصرہ پہنچتے ہیں۔ ابان بن ابی عیاشؒ سے ملاقات کرتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں:
میں آپ سے ایک حدیث سننے کے لئے کوفہ سے آیا ہوں۔ ابان نے ان کو محض ایک حدیث کی خاطراتنا لمبا سفر پیدل طے کرنے پر بہت سی دعائوں سے نوازا۔ آج جو ذخیرئہ حدیث ہمارے پاس موجود ہے یہ آسانی سے ہمارے پاس نہیں پہنچ گیابلکہ ان احادیث کو جمع کرنے اور ان کی تحقیق کے لئے علمائے کرام نے گھر بار کو چھوڑا، لمبے لمبے اسفار کی صعوبتیں، گرمی سردی اور بھوک پیاس برداشت کی۔ محدثین سے براہ راست ملاقات کی۔ جب یقین ہو گیا کہ حدیث صحیح ہے،محدثین کے مقرر کردہ معیار کے مطابق ہے تو پھر اسے اپنی کتاب میں لکھا اور اپنے شاگردوں کو لکھوایا۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post