قدرت کے کھیل نرالے…

0

ملائیشیا کے مشہور ہارٹ سرجن اور ہمارے ہم وطن ڈاکٹر شکیل میمن نے مجھے اور میرے میزبان علی سولنگی کو فون کیا کہ ہم کوالانگارا (National Heart Institute) ضرور آئیں، جہاں وہ ملازمت کرتے ہیں، لیکن وقت کی کمی کے سبب ہم معذرت کرتے رہے۔ جاپان روانہ ہونے سے ایک دن پہلے میرے کہنے پر علی مجھے ایک ملئی فیملی سے ملوانے کے بعد ’’شاہ عالم‘‘ شہر میں مقیم ٹنڈو قیصر کے پروفیسر ڈاکٹر شفیع محمد نظامانی کے گھر لے جانے کیلئے روانہ ہوئے، انہوں نے راستے میں پیٹرول بھروانا چاہا تو میں نے کہا:
’’علی! سیدھے کمپونگ بارو ملئی فیملی کے گھر چلئے۔ وہ بے چاری نوے سالہ بزرگ خاتون ہمارا انتظار کرکے تھک چکی ہوں گی‘‘۔ (وہ ہمارے دوست حبیب الرحمان اور کمال الرحمان کی والدہ ہیں)
ہم ان کے گھر کے قریب پہنچے تو موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ زیادہ عرصے کے بعد آنے کے سبب میں راستہ بھی بھول رہا تھا۔ ہم کبھی ایک گلی میں داخل ہوتے اور کبھی دوسری گلی میں۔ علی نے کہا کہ پیٹرول بھی ختم ہونے والا ہے۔ بہرحال گھر مل گیا، نہ نہ کرتے ہوئے چائے پی اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد رخصت لے کر کار میں جا بیٹھے۔
’’اب کسی قریبی پیٹرول پمپ پر جاکر گاڑی میں پیٹرول ڈلوانا ہے‘‘۔ علی نے گاڑی کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ ’’ہم وہیں ظہر کی نماز بھی پڑھ لیں گے، کیونکہ وقت نکلا جارہا ہے‘‘۔
ہم سڑک پر آئے تو تیز بارش کے سبب ایک طرف تو Visibility کم تھی اور دوسرے یہ کہ ٹریفک اس قدر جام تھا کہ مجھے کراچی یاد آنے لگا۔ علی نے کہا کہ اس طرح رینگ رینگ کر چلنے سے بچا کھچا پیٹرول بھی ختم ہوجائے گا۔ اب رسک لے کر پچھلے روڈ سنگائی بیسی پر چلتے ہیں، ہم وہاں پہنچے تو وہی منظر تھا۔
’’اس سے بہتر ہے کہ ہم مین روڈ پر چلیں‘‘۔ علی نے خیال ظاہر کیا۔
’’جی ہاں‘‘۔ میں نے ان سے اتفاق کرتے ہوئے کہا۔ ’’جالان تن رزاق سے چلئے، جہاں کویت اور انڈونیشیا کے سفارت خانوں کے پاس واقع کسی ہوٹل سے مرتباک لے کر کھائیں، بہت بھوک لگی ہے‘‘۔
تن رزاق روڈ موجودہ وزیراعظم نجیب کے والد کے نام سے موسوم ہے۔ وہ اس ملک کے دوسرے وزیراعظم تھے، اس روڈ کا اصل نام پیکلی لنگ روڈ تھا، بعد میں تبدیل ہونے کے باوجود اس کا یہی نام چلتا رہا۔ ہم اس سڑک پر پہنچے تو وہاں بھی وہی حال نظر آیا۔ ایک تو بارش رکنے کا نام نہیں لے رہی تھی، اوپر سے بھوک نے بے حال کردیا تھا۔ ہم صبح کو ناشتہ کرکے نکلے تھے اور اب شام کے چار بج رہے تھے۔ ملئی خاتون کے ہاں کھانا تیار ہونے کے باوجود ہم نے تکلف سے کام لیا اور انہیں زحمت نہ دینے کے خیال سے ہم نے کہا کہ کھانا کھا کر آئے ہیں۔ ہم نے وہاں صرف چائے پی تھی، اس کے علاوہ پیٹرول کے ختم ہونے کی فکر بھی لاحق تھی۔
’’علی! اگر پیٹرول بالکل ختم ہوجائے تو کسی پیٹرول پمپ سے بوتل میں پیٹرول مل سکتا ہے؟‘‘ میں نے پوچھا۔ میں نے اپنی آواز میں نقاہت صاف محسوس کی۔
’’آپ خود اس ملک میں رہ چکے ہیں، آپ کو معلوم ہوگا کہ ایسی حالت میں کار کو پیٹرول پمپ تک TOW کرانا پڑے گا‘‘۔
’’پھر یہی بہتر ہے کہ فرسٹ گیئر میں انچ انچ سرکتے ہوئے باقی بچے ہوئے پیٹرول کو ضائع نہ کیا جائے‘‘۔ میں نے علی سے کہا۔ ’’گاڑی کہیں سائیڈ میں جگہ دیکھ کر کھڑی کردیں، بارش ختم ہونے اور ٹریفک میں روانی آنے کے بعد کار کو دوڑاتے ہوئے سیدھا پیٹرول پمپ پر لے چلئے گا‘‘۔
’’میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ پیٹرول بہت کم رہ گیا ہے، اسے بچانے کیلئے گاڑی کہیں پارک کردی جائے‘‘۔ علی نے کہا۔ ہم اسی خیال سے ادھر ادھر دیکھ رہے تھے کہ میری سمت میں ایک بلند عمارت نظر آئی، میں نے اس کا
بورڈ پڑھ کر جلدی سے علی سے پوچھا۔
’’علی! جنتنگ یعنی دل ہے نا؟‘‘
’’جی ہاں، خیریت؟‘‘ علی نے چونک کر پوچھا۔
’’بس، اس طرف گاڑی موڑلیں اور اس عمارت میں چل کر کچھ وقت گزارتے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل ہوں یا نہ ہوں‘‘۔ میں نے کہا اور علی عمارت پر ملئی زبان میں Institut Iantung Nagara (IJN) پڑھ کر ہنسنے لگے۔
ہم گاڑی پارک کرکے رسیپشن میں جا بیٹھے۔ علی نے کہا ’’اگر کسی نے پوچھا کہ ہم یہاں کس لئے بیٹھے ہیں تو کیا جواب دیں گے؟‘‘
’’ظاہر ہے ہم کسی مریض سے ملنے کا تو نہیں کہیں گے، ورنہ وہ پوچھیں گے کہ مریض کس کمرے میں ہے، ہم کہیں گے کہ ڈاکٹر شکیل کا انتظار کررہے ہیں۔ سامنے والا سمجھے گا کہ وہ آپریشن تھیٹر یا گھر سے آنے والے ہیں‘‘۔ میں نے جواب دیا۔
کچھ دیر بیٹھ کر جب ہوش ٹھکانے آئے تو ہم نے اٹھ کر کینٹین سے بسکٹ اور چائے لے کر شکم سیری کی۔ پھر وقت گزاری کے لئے میں نے اس اسپتال کے بارے میں معلومات حاصل کرنا شروع کردی۔ علی نے کہا کہ ڈاکٹر شکیل اسپتال میں آنے کیلئے اصرار کرتے رہے، لیکن ہم نہیں آئے، آج مجبور ہوکر خود ہی یہاں چلے آئے ہیں، اپنے خرچ پر چائے پی رہے ہیں۔
بہرحال ملائیشیا کا یہ مشہور اور بڑا نیشنل ہارٹ انسٹی ٹیوٹ دنیا کے اہم اسپتالوں میں سے ایک ہے۔ یہاں کارڈیالوجی اور Cardiothoracic سرجری ہوتی ہے۔ یہاں نہ صرف ملک کے مریض بلکہ عرب دنیا کے لوگ بھی علاج کیلئے آتے ہیں۔ یہاں بچوں اور بڑوں کی ہارٹ سرجری ہوتی ہے، اس اسپتال کا سنگ بنیاد 1992ء میں رکھا گیا۔ اسپتال کی انتظامیہ نے بتایا کہ یہاں ہر سال ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ مریض علاج کیلئے آتے ہیں۔ گزشتہ سال چالیس ہزار اوپن اور کلوز ہارٹ آپریشن ہوئے۔ اس اسپتال میں 85 کنسلٹنٹ، کارڈیالوجسٹ اور Cardiothoracic سرجن اور بے ہوشی کے ڈاکٹر کام کرتے ہیں۔ مختلف کام کرنے والوں کی تعداد ایک ہزار ہے، اس کے علاوہ 500 نرسیں ہیں۔ ایک ڈاکٹر نے بتایا کہ اس اسپتال سے سابق وزیر اعظم عبداللہ احمد بداوی اور ڈاکٹر مہاتیر بن محمد نے بھی علاج کرایا ہے۔ ملک کے سلطان اور بادشاہ بھی کسی دوسرے ملک جانے کے بجائے اس اسپتال میں آتے ہیں۔ اس وقت اسپتال میں 270 مریضوں کیلئے بستر ہیں اور آئندہ سال مزید 192 مریضوں کیلئے کمرے تیار کئے جا رہے ہیں۔ اس کے علاوہ 8 جنرل وارڈ اور 5 آپریشن تھیٹر ہیں، ICU میں 8 اور CCU میں 12 بستروں کا انتطام ہے۔
ڈاکٹر شکیل نے ملائیشیا کی قدیم یونیورسٹی ’’دی یونیورسٹی آف ملایا‘‘ سے تعلیم حاصل کی۔ ملائیشیا کے سابق وزیراعظم تن عبدالرزاق اور مہاتیر بن محمد، سنگاپور کے وزیراعظم لی کیان یو، عبداللہ احمد بداوی، گوہ کینگ سوی، موسیٰ حطام اور دیگر کئی اہم لوگ اس یونیورسٹی کے طالب علم رہے ہیں۔ ڈاکٹر شکیل نے بتایا کہ انہیں بچپن ہی سے دل کا ڈاکٹر بننے کا شوق تھا۔ یہاں آکر ان کا واسطہ پیٹ کے امراض کے ماہر ایک ڈاکٹر سے پڑا۔
’’انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ مجھے اپنا سارا تجربہ دیںگے اور مجھے ایسا ماہر بنائیںگے کہ دنیا دیکھے گی‘‘۔ ڈاکٹر شکیل نے بتایا کہ وہ عجیب شش و پنج میں پڑ گئے کہ اب کیا کرنا چاہئے۔ ’’لیکن چند دنوں کے بعد میں نے ڈرتے ڈرتے ان کے سامنے اپنی خواہش بیان کردی کہ میں یہاں دل کا سرجن بننے کیلئے آیا ہوں۔ وہ میری بات سن کر خاموش ہوگئے، شریف آدمی تھے، انہوں نے میرے شوق کی قدر کی اور میرے لئے مطلوبہ انتظام کردیا۔
’’میں نے پختہ ارادہ کرلیا تھا کہ جب تک سرجن نہیں بن جاتا، شادی نہیں کروںگا اور نہ ہی سیرو تفریح میں وقت ضائع کروں گا‘‘۔ ایک دن ڈاکٹر شکیل نے بتایا تھا۔ ’’میں نے جیسے ہی کامیابی حاصل کرلی اور ملازمت بھی مل گئی تو پھر میں اپنے ملک چلا گیا اور اپنی منگیتر نسیم سے شادی کرلی‘‘۔
ڈاکٹر شکیل کی بیگم کا تعلق بھی ہالا کے ایک تعلیم یافتہ، شریف، غریب اور نیک گھرانے سے ہے۔ اس فیملی نے ہمیشہ دولت اور آسائش کے بجائے تعلیم، اخلاق، شرافت اور خدمت خلق کو ترجیح دی۔ اتفاق سے ڈاکٹر شکیل کا گھر ہمارے گھر کے قریب رہا ہے اور نسیم کا گھر ہماری بہن کے پڑوس میں تھا۔ اس لئے نصف صدی سے میری ان کے گھرانوں سے واقفیت رہی ہے۔ نسیم، مرحوم محمد سلیمان میمن کی بیٹی ہیں، وہ دو بھائی اور دو بہنیں ہیں۔ نسیم سب سے چھوٹی ہیں، انہوں نے اسلامک کلچر میں MA اور B.ed کیا ہے۔ ان کی بڑی بہن کی شادی ڈاکٹر شکیل کے چچا انجینئر مجید کے ساتھ ہوئی ہے۔ بھائیوں میں چھوٹا محمد میمن انجینئر ہے اور بڑے بھائی نور محمد ڈاکٹر اور پاک فوج میں برگیڈیئر ہیں۔ ہالا سے تعلق رکھنے والے کئی نوجوان برگیڈیئر کے رینک تک پہنچ چکے ہیں، لیکن میڈیکل فیلڈ میں ڈاکٹر نور محمد پہلے ہیں۔
ڈاکٹر نور محمد یکم نومبر 1954ء میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے 1980ء میں جام شورو سے ایم بی بی ایس کیا اور تین چار ماہ ہاؤس جاب کرنے کے بعد 1981ء میں فوج میں چلے گئے۔ ان کی پہلی پوسٹنگ گوجرانوالہ میں ہوئی۔ کیپٹن، میجر اور لیفٹیننٹ کرنل کی پوسٹیں حاصل کرتے ہوئے 1994ء میں کرنل کے عہدے کو پہنچے۔ اس کے بعد انہوں نے قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد سے ’’ایڈوانسڈ میڈیکل ایڈمنسٹریشن‘‘ میں 1999ء میں ایم ایس سی کیا۔ انہوں نے ستمبر 2010ء میں برگیڈیئر کے رینک میں ریٹائرمنٹ حاصل کی۔ قارئین کی دلچسپی کیلئے تحریر کرتا چلوں کہ جس طرح ڈاکٹر نور محمد میمن ہمارے شہر کے پہلے ڈاکٹر ہیں جو اس رینک تک پہنچے، اسی طرح بڑی بہن ڈاکٹر مہر النساء میمن ہالا کی پہلی خاتون ہیں، جنہوں نے پاکستان آرمی جوائن کی۔ اس وقت وہ کیپٹن کے رینک پر ہیں، ان کے شوہر ساجد بھی آرمی میں کیپٹن ہیں، جن کے والد محترم احمد میٹھو درس و تدریس کا کام کرتے ہیں۔ ان کی قابلیت، خدمت کے جذبے اور محنت سے کئی طالب علم فیض یاب ہوئے۔ وہ ہمارے شہر ہالا کی ایک قابل احترام شخصیت ہیں۔ آج ان نوجوانوں کا ذکر کرتے ہوئے مجھے بے حد خوشی محسوس ہورہی ہے کہ ان تمام لوگوں نے محنت اور ایمانداری سے اپنے مقصد میں کامیابی حاصل کرکے اپنا اور اپنے خاندان کا نام روشن کیا، یہ سب سیلف میڈ لوگ کہے جاسکتے ہیں۔
میرے ہم عمر ملئی دوست ابوبکر بن احمد کا جب دل کا آپریشن ہوا تو ایک تقریب میں ڈاکٹر شکیل کو میرے ساتھ دیکھ کر انہوں نے کہا تھا۔ ’’آپ کے ملک کے یہ ڈاکٹر بہت قابل ہیں‘‘۔
یہ سن کر میں نے دل ہی دل میں اپنے رب کا شکر ادا کیا اور خوشی سے میری آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ میں نے انہیں بتایا ’’یہ نہ صرف میرے ملک بلکہ میرے شہر، میرے محلے کے ہیں‘‘۔
25 برس قبل 1987ء میں اپنے اس ملئی دوست ابوبکر بن احمد کے ساتھ ملاکا کی نیول اکیڈمی کے فٹ بال گراؤنڈ میں کھیلتے ہوئے میں نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ان دنوں میں ہمارے شہر کے اور ہمارے پڑوسی کا ایک بچہ جو پانچویں کلاس میں پڑھتا ہے، وہ گیارہ سالہ شکیل ایک دن ملائیشیا میں ہارٹ سرجن بنے گا اور میرے اس پھرتیلے دوست کھلاڑی کی بڑھاپے میں دل کی بند ہونے والی نالیاں کھولے گا۔
یہ قدرت کے نرالے کھیل ہیں، انسان جس سے بے خبر رہتا ہے۔
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More