چونکہ سیدنا ابن مسعودؓ کی تربیت رسول اکرمؐ کے گھر میں ہوئی تھی، اس لئے آپؓ کی سیرت و کردار کو اپنانے کا بہت زیادہ موقع ملا اور اسی لئے صحابہؓ کی جماعت میں حضور اقدسؐ سے زیادہ قریب تر یہی صحابیؓ کہلاتے تھے۔
حضرت ربیعؒ کو ایسے مبارک استاد (حضرت ابن مسعودؓ) ملے۔ یہ استاد کا ادب و احترام اس طرح کرتے تھے اور استاد سے محبت اور تعلق ایسا تھا جیسا اکلوتے بیٹے کو اپنی ماں سے ہوتا ہے کہ اس بیٹے کے لئے اس کی ماں کے علاوہ کوئی اور سہارا نہیں ہوتا اور استاد کو بھی اس شاگرد سے ایسا ہی تعلق تھا جیسے محبوب باپ کو اپنے اکلوتے بیٹے سے ہوتا ہے۔
اسی بنا پر حضرت ربیعؒ حضرت ابن مسعودؓ کے پاس بغیر اجازت کے اندر جاسکتے تھے اور جب تک حضرت ربیعؒ ہوتے تو کسی اور کو اندر آنے کی اجازت نہ ہوتی۔
حضرت ابن مسعودؓ جب حضرت ربیع بن خثیمؒ کے دل کی صفائی، اخلاص اور بہترین طریقے سے عبادت کی ادائیگی کو دیکھتے، تو ان کا جی بھر آتا کہ کاش میرا یہ شاگرد نبی کریمؐ کی زندگی میں ہوتا اور حضور اکرمؐ کی صحبت سے محروم نہ ہوتا اور کبھی فرماتے تھے:
’’اے ابو یزید! اگر تمہیں حضور اقدسؐ دیکھ لیتے تو یقیناً تم سے محبت فرماتے‘‘۔
اور کبھی فرماتے: ’’اے ربیع! میں جب بھی تجھے دیکھتا ہوں مجھے خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں خشوع وخضوع کرنے والے لوگ یاد آجاتے ہیں‘‘۔
فکر آخرت کا استحضار:
سیدنا ربیعؒؒ کو جنت اور جہنم کی آیات کا اتنا استحضار تھا (یعنی ہر وقت ان کے ذہن میں تھیں) کہ ان کے ساتھی کہتے ہیں:
ایک مرتبہ ہم سفر پر جارہے تھے، حضرت ابن مسعودؓ بھی ساتھ تھے اور حضرت ربیع بن خثیمؒ بھی تھے، جب ہم دریائے فرات کے کنارے پہنچے، وہاں ایک جلتی ہوئی لوہے کی بھٹی کو دیکھا جس میں آگ کے شرارے اوپر اٹھ رہے تھے اور آگ کی تیز آواز اس میں سے آرہی تھی۔ جب حضرت ربیعؒ نے یہ منظر دیکھا تو وہیں ٹھہر گئے، جسم پر لرزہ طاری ہو گیا، اس طرح کپکپائے کہ ہم گھبرا گئے اور اس آیت کی تلاوت کرنے لگے:
ترجمہ: ’’جب وہ (جہنم) دیکھے گا ان کو دور کی جگہ سے، سنیں گے اس کا جھنجھلانا اور چلانا۔‘‘
خلاصہ تفسیر: ’’وہ (دوزخ) ان کو دور سے دیکھتے ہی غضب ناک ہو کر اس قدر جوش مارے گی کہ وہ لوگ (دور ہی سے) اس کا جوش و خروش سنیں گے۔‘‘
یہ آیت تلاوت فرماتے ہوئے گر پڑے اور بے ہوش ہو گئے، ہوش آنے تک ہم وہیں بیٹھے رہے، پھر ہم نے انہیں گھر پہنچایا۔
خصوصی صفت:
سیدنا ربیعؒ میں ایک خصوصی صفت یہ تھی کہ پوری زندگی موت کے انتظار میں گزار دی، حق تعالیٰ کی ملاقات کے لیے ہر وقت تیار رہتے تھے کہ آج نہیں بلکہ ابھی ملک الموت (موت کا فرشتہ) بلانے کے لیے آجائے تو اس کے ساتھ جانے کے لیے ذرا بھی غور و فکر نہ کرنا پڑے اور فوراً لبیک کہہ دیں۔
جب موت کا وقت قریب آیا تو ان کی بیٹی رونے لگی۔ (یہ امتحان کا وقت ہوتا ہے کہ باپ جارہا ہو اور ایسے سفر پر جارہا ہو جہاں سے کبھی کوئی واپس نہیں لوٹا اور بیٹی رو رہی ہو، یہ منظر دیکھ کر کون ہے جس کے آنسو نہ آتے، لیکن جس باپ نے دنیا ہی میں آخرت کے لیے محنت کرلی ہو گی اور روزانہ رات کو موت کو سوچ کر سویا ہوگا کہ ایک دن مرنا ہے، سب کو چھوڑ کر جانا ہے اور جہاں جانا ہے وہاں کی تیاری کرنی ہے، اگر وہاں اعمال لے کر گئے تو ہمیشہ ہمیشہ بیوی بچوں کے ساتھ خوشیوں میں رہنا نصیب ہوگا۔ ایسے باپ کا جو جواب ہوتا ہے وہی انہوں نے کہا اور فرمایا:
ترجمہ: ’’اے بیٹی کیوں روتی ہو، تمہارے والد کو تو بہت ہی بہتر چیز مل رہی ہے۔‘‘
(وہ اپنے خالق و مالک سے ملنے جارہے ہیں جنت اور اس کی نعمتیں ان کا ٹھکانہ بنیں گی اور چند دنوں بعد تم بھی اپنے والد کے ساتھ جاکر ملوگی)
یہ کہہ کر انہوں نے اپنی روح اس کے پیدا کرنے والے کے سپرد فرما دی اور انتقال کر گئے۔
فوائد و نصائح:
حضرت ربیع بن خثیمؒ کی زندگی بھر کے حالات پر نظر کرنے سے چند اہم باتیں سامنے آئیں:
-1 ایک یہ کہ موت کا استحضار ان کو اس قدر تھا کہ دنیا کی پریشانی کو کبھی پریشانی نہیں سمجھا، یا کم از کم اس کی فکر کو دل پر اس طرح طاری نہ ہونے دیا کہ اصل سوچ (فکر آخرت) پر غالب آجائے۔
-2 ہر بات کہنے اور ہر کام کرنے سے پہلے یہ توجہ ساری عمر رہی کہ اس سے آخرت بن رہی ہے یا بگڑ رہی ہے، اور ظاہر ہے کہ یہ دولت جس کو نصیب ہو جائے وہ نافرمانی کرنے سے کس قدر بچے گا اور استغفار کو کیسا لازم پکڑے گا اور اس کا اعمال نامہ کس قدر شفاف ہو گا۔
-3 گناہوں سے بچنے کی خصوصی وصیت فرماتے تھے اور گناہوں میں بھی خصوصاً چھپے ہوئے گناہ سے بچنے کی وصیت فرماتے۔
-4 ہمیشہ اپنے والدین کے فرماں بردار بنے۔ کیونکہ رب تعالیٰ نے انبیائے کرامؑ کے لڑکپن کے جو حالات بتائے ہیں وہاں خاص کر والدین کے فرماں بردار کا ذکر فرمایا۔ اب ماں باپ کو وہی بچہ اچھا لگتا ہے جو اپنے والدین کا فرماں بردار ہونے کے ساتھ ساتھ اچھے اخلاق کا مالک ہو، برائیوں سے بچتا بھی ہو، گناہوں سے پرہیز کرتا ہو، یہ باتیں ہم میں آجائیںگی تو ہم رب تعالیٰ کی اس بشارت کے مستحق ہوں گے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post