سعادت کی زندگی

0

حضرت ثابت بن قیسؓ فصیح و بلیغ، قرآن کریم کو جاننے والے اور اس کے اعجاز کو سمجھنے والے صحابی تھے۔ وہ گفتگو کے جملہ طریقوں کو خوب اچھی طرح جانتے تھے۔ یہ خوبیاں ان میں اس لیے پیدا ہوئی تھیں کہ یہ معلم اول رسول اکرمؐ کی آغوش میں پناہ گزیں تھے اور براہ راست علمی فیض حاصل کر رہے تھے۔
جب قرآن کریم کے کسی مقام کو سمجھنے میں کوئی الجھن پیش آتی تو وہاں رک جاتے، غور وتدبر کرتے، پھر بھی سمجھ نہ آتی تو رسول اقدسؐ سے اس کا حل معلوم کرتے۔
علاوہ ازیں حضرت ثابت بن قیسؓ کا شمار ان تیس خوش نصیب صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے، جنہیں کاتب وحی ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔
قرآن کریم کے ساتھ گزارے گئے خوش گوار لمحات سے ایک نہایت ہی قیمتی اور سنہری وہ موقع ہے، جب کہ حضرت ثابت بن قیسؓ رسول اقدسؐ کے دامن میں پناہ گزیں ہوئے۔ آپؐ نے حضرت ثابت بن قیسؓ کی عمدہ طبیعت، ایمان کی گہرائی اور اپنے خالق کے ساتھ مضبوط رابطے کا مشاہدہ کیا تو انہیں سعادت کی زندگی، شہادت کی موت اور اہل جنت میں سے ہونے کا مژدہ سنایا۔ تاریخی کتابوں میں یہ مذکور ہے کہ حضرت ثابت بن قیسؓ نے عرض کیا: ’’حضور! مجھے اندیشہ ہے کہ میں تباہ وبرباد ہو جائوں گا۔ اس لیے کہ خدا نے ہمیں منع کیا ہے کہ ہم یہ دلی رغبت رکھتے ہوں کہ ہماری ان کاموں کے حوالے سے تعریف کی جائے، جو ہم نے سر انجام نہ دیئے ہوں۔ میری یہ کیفیت ہے کہ مجھے اپنی تعریف بہت پسند ہے۔ حق تعالیٰ نے نخوت اور اکڑفوں سے ہمیں منع کیا ہے۔ میں ایک ایسا شخص ہوں جو حسن و جمال کو بہت پسند کرتا ہوں۔ حق تعالیٰ نے ہمیں اس سے بھی روکا ہے کہ ہم اپنی آوازیں آپ کی آواز سے بلند کریں۔ میں ایک ایسا شخص ہوں جس کی آواز بڑی بلند ہے۔‘‘
رسول اقدسؐ نے ارشاد فرمایا: ’’اے ثابت! کیا تجھے یہ پسند ہے کہ سعادت کی زندگی، شہادت کی موت حاصل کرے اور تو جنت میں داخل ہو۔‘‘
عرض کیا: ’’حضور! بالکل، کیوں نہیں؟‘‘
تو واقعی انہوں نے سعادت کی زندگی حاصل کی اور مسیلمہ کذاب کے مقابلے میں جنگ یمامہ میں جام شہادت نوش کیا۔
طبریؒ اور ابن کثیرؒ نے اپنی اپنی تفسیر کی کتابوں میں اس آیت کریمہ کے ضمن میں لکھا ہے۔
ترجمہ: ’’اگر ہم نے انہیں یہ حکم دیا ہوتا کہ اپنے آپ کو ہلاک کردو یا اپنے گھروں سے نکل جائو تو ان میں سے کم ہی آدمی اس پر عمل کرتے۔‘‘ (النساء 66)
ایک دفعہ حضرت ثابت بن قیسؓ اور ایک یہودی شخص نے باہمی طور پر فخر و مباہات کا تذکرہ کیا۔
یہودی کہنے لگا: ’’خدا کی قسم، حق تعالیٰ نے ہم پر یہ حکم نازل کیا کہ اپنے آپ کو قتل کردیں تو ہم نے اپنی جانوں کو قتل کردیا۔‘‘
حضرت ثابتؓ نے اس کے جواب میں کہا: ’’خدا کی قسم، اگر خدا ہمیں یہ حکم دیتے کہ تم اپنی جانوں کو قتل کردو تو ہم بھی اپنے آپ کو قتل کردیتے۔‘‘ تو حق تعالیٰ نے یہ آیت نازل کردی۔
ترجمہ: ’’حالانکہ جو نصیحت ان کو کی جاتی ہے، اگر یہ اس پر عمل کرتے تو یہ ان کے لیے زیادہ بہتری اور زیادہ ثابت قدمی کا موجب ہوتا۔‘‘ (النسائ: 66)
یہ بات جب رسول اقدسؐ تک پہنچی تو آپؐ نے ان کے متعلق یہ ارشاد فرمایا:
ترجمہ: ’’میری امت میں کچھ لوگ ایسے ہیں کہ جن کے دلوں میں ایمان مضبوط پہاڑوں سے بھی زیادہ پختہ ہے۔‘‘
موت میں زندگی
جنگ احد میں کفار کے ہجوم نے رسول اقدسؐ کو گھیرے میں لے لیا اور کسی طرح ہٹتے نہ تھے۔ شیدائیانِ رسولؐ اپنے آپ کو رسول اقدسؐ کی حفاظت میں قربان کر رہے تھے۔ جب آپؐ کو اس ہجوم کے منتشر ہونے کی کوئی صورت نظر نہیں آئی تو آپؐ نے فرمایا: ’’لوگو! کون ہے جو مجھ پر جان دینے کو تیار ہے؟‘‘
حضرت زیاد بن سکنؓ پانچ انصاریوں کو لیکر آگے آئے اور بڑھ کر کہا: لبیک یا رسول! اور بھیڑ کو چیرتے ہوئے کفار کی صفوں میں جا گھسے۔
حضرت زیادؓ بن سکن اپنی جماعت کو لیکر اس جان بازی اور شجاعت سے لڑے کہ کفار کی صفوں میں ابتری پیدا ہوگئی۔ یہ پانچوں سرفروش تلوار لیکر جدھر نکل جاتے، کفار میں بھگڈر مچ جاتی۔ یہ لوگ اس وقت تک لڑتے رہے، جب تک شہید نہ ہوگئے، لیکن ان کی بہادری سے کفار کے قدم بھی متزلزل ہوگئے۔
جنگ ختم ہونے پر رسول اقدسؐ نے فرمایا: ’’زیاد بن سکنؓ کی لاش میرے پاس لائو۔ جب انہیں لایا گیا تو ان میں زندگی کی کچھ رمق باقی تھی۔ انہوں نے خود کو آگے بڑھ کر لٹانے کا اشارہ کیا اور انہوں نے رسول اقدسؐ کے قدموں پر سر رکھ دیا۔ رسول اقدسؐ نے ان کی تسلی کے کچھ الفاظ کہے اور زیادؓ بن سکن اسی حالت میں آپؐ کے قدموں میں سر رکھے ہوئے اس عالمِ فانی سے رخصت ہوگئے۔ (صحیح مسلم، غزوئہ احد، کتاب المغازی)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More