کہنے کو تو امریکا پاکستان کے پہلے وزیر اعظم خان لیاقت علی خان کے دور سے خود کو ہمارے ملک کا اتحادی قرار دیتا چلا آرہا ہے۔ اس نے بلاشبہ پاکستان کو امداد اور قرضے دیئے اور آئی ایم ایف جیسے عالمی مالیاتی اداروں کو بھی پاکستان کے ساتھ معاشی تعاون کے لیے کہا۔ لیکن مغربی طاقتوں اور ان کے زیراثر امداد و قرضہ جات دینے والی بین الاقوامی ایجنسیوں کی بدنیتی اور خود پاکستانی حکمرانوں کی ذاتی اغراض، مفاد پرستی، نااہلی اور ناقص کارکردگی کے باعث امداد اور قرضوں کی اکثر رقوم بالا ہی بالا ہڑپ کر لی گئیں۔ انہیں ترقیاتی کاموں اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ نہیں کیا گیا، جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ یکے بعد دیگرے قرضے لینے اور ان کی قسطیں ادا نہ کرنے کی وجہ سے وطن عزیز پر قرضوں کا بوجھ بڑھتا گیا، یہاں تک کہ قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے بھی مزید قرضے لیے گئے، جبکہ اصل قسطیں نہ صرف برقرار رہیں، بلکہ بڑھتی چلی گئیں۔ قوم کی اکثریت اس حقیقت سے بے خبر ہے کہ پاکستان کی کئی تاریخی عمارتیں، ہوائی اڈے اور شاہراہیں تک قرضوں کی ضمانت کے عوض گروی رکھی جا چکی ہیں، جبکہ ملک کا بچہ بچہ کم و بیش ڈیڑھ لاکھ روپے کا مقروض ہے۔ بعض نام نہاد قومی رہنمائوں کی ’’حبّ الوطنی‘‘ کا اندازہ اس امر سے کیا جا سکتا ہے کہ ان میں سے ایک نے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے لیے امریکا کو یہ پیشکش کی تھی کہ اگر اسے ایک موقع اور دے دیا جائے تو وہ امریکا کو پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک رسائی دے دے گا۔ جبکہ ایک مذہبی رہنما کے بارے میں مشہور ہے کہ اس نے پاکستان کا وزیر اعظم بننے کے لیے یہ یقین دہانی کرانے کی کوشش کی تھی کہ برسر اقتدار آنے کے بعد وہ پاکستان اور افغانستان سے طالبان کا صفایا کر دیں گے۔ ان کی جانب سے اس پیشکش کی یہ بنیاد بنائی گئی کہ مذکورہ رہنما اور ان کے گروپ کی طالبان سے قریبی مفاہمت اور ہم آہنگی ہے۔ پاکستان اور مسلم دنیا پر بالادستی کے منصوبے بنانے اور اقدامات کرنے والی بیرونی طاقتیں امریکا کی سرپرستی میں خاص طور پر پاکستان کو ہر وقت دبائو میں رکھنا چاہتی ہیں اور ہماری ہر کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے درپے نظر آتی ہیں۔ گزشتہ حکومت کے اختتام تک پاکستان بیرونی سود خور ممالک اور مالیاتی اداروں کے قرضوں میں بری طرح جکڑا ہوا تھا اور اسٹیٹ بینک کے مطابق درآمدات و برآمدات کے عدم توازن کی وجہ سے ہمارے پاس زرمبادلہ کے ذخائر صرف بیس ارب ڈالر رہ گئے ہیں۔ عام انتخابات کے نتیجے میں کسی سیاسی جماعت کو قومی اسمبلی میں واضح اکثریت نہیں مل سکی ہے اور جوڑ توڑ کا سلسلہ تادم تحریر جاری ہے۔ ایسی صورت حال میں جو حکومت تشکیل پائے گی وہ یقینا کمزور ہو گی اور اسے ہر وقت مختلف دبائو اور سودے بازی کا سامنا کرنا پڑے گا۔ ہمارا خزانہ خالی ہونے کے باعث امریکا بہادر آس لگائے بیٹھا ہے کہ اب اگر پاکستان آئی ایم ایف کے پیش نئے قرضے یا بیل آئوٹ پیکیج کے لیے آئے تو سخت ترین شرائط کے ساتھ اس پر ایسا کاری وار کیا جائے کہ وہ اقتصادی طور پر آئندہ اٹھ نہ سکے۔ یوں ایٹمی تنصیبات سمیت پاکستان کے قیمتی اثاثے اپنے قبضے میں کرنے کی پوری کوشش کی جائے۔
پاکستان نے اب تک آئی ایم ایف سے کوئی درخواست نہیں کی ہے، بلکہ تحریک انصاف کی متوقع حکومت کے وزیر خزانہ اسد عمر کا یہ بیان سامنے آچکا ہے کہ ہم امداد اور قرضے کا کشکول لے کر آئی ایم ایف کے پاس نہیں جائیں گے، بلکہ خود اپنے وسائل اور دیگر ذرائع سے اقتصادی بحران پر قابو پانے کی کوشش کریں گے۔ بیرونی قرضوں کی ادائیگی اور قوم کی ترقی و خوش حالی کا سب سے مؤثر اور اہم ذریعہ تو یہ ہے کہ پاکستان کی لوٹی ہوئی رقم جلد از جلد قومی خزانے میں واپس لائی جائے، اس کے لیے اگر قانون سازی کی ضرورت ہو تو فوری نفاذ کے لیے مؤثر قوانین منظور کئے جائیں۔ اس سلسلے میں فوج اور عدلیہ سے مدد لی جا سکتی ہے۔ ان دونوں اداروں پر قوم کو اب تک پورا اعتماد ہے اور وہ عام دہشت گردوں کے ساتھ مالی دہشت گردوں سے نمٹنے میں بھرپور کردار ادا بھی کر رہے ہیں۔ امریکا کی پاکستان دشمنی ایک بار پھر کھل کر سامنے آگئی ہے کہ ہماری نئی کمزور حکومت اور معاشی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر خود اور آئی ایم ایف کے ذریعے بھی پاکستان پر شدید دبائو ڈال کر اپنی شرائط اور مطالبات منوائے جائیں۔ فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپو نے ایک طرف یہ کہا ہے کہ امریکا پاکستان کی نئی حکومت کے ساتھ اچھے تعلقات اور کام کرنے کا خواہاں ہے۔ دوسری جانب انہوں نے آئی ایم ایف کو خبردار کیا ہے کہ پاکستان کے لیے کوئی بیل آئوٹ پیکیج منظور نہ کیا جائے، کیونکہ پاکستان اس رقم سے چین کے قرضے ادا کر دے گا۔ امریکی وزیر خارجہ نے دھمکی آمیز لہجے میں کہا کہ کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، ہم آئی ایم ایف کے اقدامات پر پوری نظر رکھیں گے۔ انہوں نے کہا کہ امریکی ڈالروں سے چین کی حکومت یا قرض دہندہ اداروں کو ادائیگی کرنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ یاد رہے کہ امریکی وزیر خارجہ پومپو کے بیان سے قبل فنانشل ٹائمز نے یہ شوشہ چھوڑا تھا کہ پاکستان آئی ایم ایف سے بارہ ارب ڈالر کا بیل آئوٹ پیکیج لینے کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکا پاکستان کے علاوہ چین سے بھی زبردست پرخاش رکھتا ہے، ان دونوں ملکوں کی دوستی اور ترقی اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ امریکا سی پیک اور چین کے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا سخت مخالف ہے، کیونکہ اس طرح چین کے علاوہ پاکستان اور اردگرد کے کئی علاقوں میں ترقی و خوش حالی کے دور کا آغاز ہو جائے گا اور وہ امریکا یا مغربی ممالک کے محتاج نہیں رہیں گے۔ امریکا کی بالادستی ختم ہو جائے گی اور تیزی سے ترقی کرنے والا چین صنعت و تجارت اور اقتصادی میدانوں میں اور بھی آگے بڑھ جائے گا۔ ادھر چین نے بیل آئوٹ پیکیج پر پاکستان کو دبائو میں رکھنے کی امریکی پالیسی پر ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا آئی ایم ایف پر حکم چلانے کے بجائے جنوبی ایشیا کے ترقیاتی کاموں میں شریک ہو کر اپنی عالمی قوت کا ثبوت دے۔ چین نے بجاطور پر اس امید کا اظہار کیا ہے کہ آئی ایم ایف سے متعلق امور پر پاکستان خود ہی امریکا اور عالمی مالیاتی اداروں سے مناسب طور پر نمٹ لے گا۔ آئی ایم ایف کے اپنے قواعد و ضوابط ہیں، لہٰذا اسے کسی سے ڈکٹیشن لینے کی ضرورت نہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاکستان نے اب تک کسی بیل آئوٹ پیکیج کی درخواست دی ہے نہ اس سلسلے میں کوئی بات چیت ہوئی ہے، جس کی آئی ایم ایف نے بھی تصدیق کر دی ہے۔ آئی ایم ایف کو امریکا سے کہنا چاہئے کہ وہ ’’تو کون؟ میں خواہ مخواہ‘‘ کی اپنی دیرینہ پالیسی ترک کر دے۔ دنیا بہت بدل چکی ہے اور امریکا کی بالادستی کا دور لد چکا ہے۔
٭٭٭٭٭
Prev Post