قسط نمبر34
بقی بن مخلدؒ نے امام احمد ابن حنبلؒ کے دروازے پر دستک دی۔ امام احمد ابن حنبلؒ نے دروازہ کھولا۔ پوچھا کون ہو؟ جواب ملا:میں غریب الدیار مسافر ہوں۔ حدیث کا طالب علم ہوں، بڑی دور سے آیا ہوں۔ آپ سے حدیث پڑھنے کے لئے یہ سفر طے کیا ہے۔آپؒ نے پوچھا: کس ملک سے آئے ہو؟ جواب ملا: بہت دور سے آیا ہوں۔ ارے افریقہ سے آئے ہو؟ کہنے لگے: وہاں سے بھی دور، بہت ہی آگے اندلس (یورپ) سے آیا ہوں۔ اچھا اتنا لمبا سفر! اب تم کیا چاہتے ہو؟
بقیؒ نے عرض کیا: آپ سے حدیث پڑھنا چاہتا ہوں۔ اسی ایک غرض سے بغداد آیاہوں،اس کے سوا مجھے دنیا کا کوئی کام نہیں۔ میں تمہاری مدد تو کرنا چاہتا ہوں، پڑھانے کے لئے تیار ہوں، مگر میرے سبق پڑھانے پر تو سخت پابندی ہے۔
بقیؒ نے کچھ دیر سوچا،غور کیا،کہنے لگے: حضرت! میں اس شہر میں نو وارد ہوں۔مجھے نہ کوئی جانتا ہے نہ پہچانتا ہے۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں ہر روز آپ کے پاس فقیرانہ لباس میں آیا کروں گا، دروازہ کھٹکھٹائوں گااور صدقہ طلب کروں گا۔ آپ باہر تشریف لائیں گے اور مجھے ایک،2 احادیث سنا دیا کریںگے۔
امام احمدؒ نے فرمایا : تمہاری تجویز معقول ہے، مگرمیری ایک شرط تمہیں قبول کرنا ہو گی۔ بقیؒ نے عرض کیا: فرمائیے وہ کیا ہے؟ کہنے لگے:اگر تم میرے پاس آکر پڑھنا چاہتے ہو تو پھر شہر کے کسی علمی حلقے اور بطور خاص حدیث پڑھنے پڑھانے والوں کے حلقات میں تم شرکت نہیں کرو گے۔ بقی نے بطیب خاطر اس پر موافقت ظاہر کر دی۔
بقیؒ سرائے میں واپس آئے،اپنا لباس تبدیل کیا۔ مانگنے والوں جیسے کپڑے پہنے،اپنی جیب میں قلم دوات ڈالی اور اگلے روز امام احمد بن حنبلؒ کے دروازے پر کھڑے ہو کرآواز لگا رہے ہیں:
’’خدا تمہیں اجر دے گا‘‘ (اس زمانے کے بغداد میں بھیک مانگنے کا یہی طریقہ تھا)۔
امام احمدؒ باہر تشریف لائے، بقیؒ اندر داخل ہو گئے۔ دروازے کو بند کر لیا گیا۔ بقیؒ کہتے ہیں: امام احمدؒ نے مجھے 2 یا 3 احادیث لکھوا دیں۔
بقی بن مخلدؒ کی خوش قسمتی ملاحظہ کیجیے۔ حدیث سیکھنے کی تڑپ کا نتیجہ یہ نکلا کہ اپنے وقت کی سب سے بڑی علمی شخصیت سے براہ راست احادیث حاصل کر رہے ہیں۔
بقی بن مخلدؒ ہر روز امام احمدؒ کے گھر پر حاضری دیتے ہیں۔ان سے ایک،2یا زیادہ احادیث کا سبق لیتے ہیں اور انہیں لکھنے کے بعد سرائے واپس چلے جاتے ہیں۔ اس طرح کرتے کرتے انہوں نے قریباً300 احادیث لکھ لیں۔واثق خلیفہ کا دور جلد ہی ختم ہو گیا۔
واثق کی وفات کے بعد متوکل کا دورِ حکومت شروع ہوتا ہے۔ متوکل اہل سنت والجماعت اور امام احمدؒ سے محبت رکھتا تھا۔ اس نے حکومت سنبھالتے ہی امام احمدؒ پر عائد ہر قسم کی پابندیاں ہٹا دیں۔ انہیں درس و تدریس کی اجازت دے دی گئی۔ امام احمدؒ کے شاگردوں میں بقی بن مخلدؒ کا بھی اضافہ ہوا۔ جب بقیؒ پڑھنے کے لئے آتے تو امام صاحبؒ طلبہ کو حکم دیتے کہ مجلس میں وسعت پیدا کرو۔ بقیؒ کے لئے امام صاحبؒ کے پاس جگہ بنا دی جاتی۔ وہ امام صاحبؒ کے بالکل ساتھ بیٹھ کرعلم حاصل کرتے۔ امام ِ احمدؒ اپنے شاگردوں کو بتاتے کہ اس نوجوان پر’’حقیقی طالب علم‘‘کا لقب صادق آتا ہے۔
بقی بن مخلدؒ صرف حدیث سیکھنے کے لئے ہزاروں کلومیٹر کا فاصلہ طے کر کے بغداد آئے تھے۔ تصور کیا جا سکتا ہے کہ انہوں نے یہ سفر کتنے عرصہ میں اور کتنی صعوبتیں برداشت کر کے طے کیا ہو گا۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post