ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
یہ ہمارا حرمین شریفین کا گیارہواں سفر تھا، جب ہم لوگوں نے عمرے کے بعد مدینہ میں قیام کے دوران بدر جانے کا پروگرام بنایا۔ زائرین عمرہ کیلئے مکہ، مدینہ، جدہ کے علاوہ کسی اور مقام پر جانے کی اجازت نہیں تھی۔ مکہ میں قیام کے دوران کئی مرتبہ طائف کا پروگرام بنا اور ہر مرتبہ کوئی نہ کوئی رکاوٹ راستے میں آگئی۔ بہرحال مدینہ سے بدر 98 میل پر واقع ہے اور ہم چار زائرین اس بات پر متفق تھے کہ خدا کی مرضی اگر ہوئی تو بدر اور غزوئہ بدر کا میدان ضرور دیکھیں گے۔ فجر اور اشراق پڑھ کر ہم لوگ بقیع کی طرف آ گئے، جہاں کئی ٹیکسیاں کھڑی تھیں۔ میرے بیٹے نے ایک ٹیکسی والے سے بدر جانے کی بات کی، وہ سعودی چیک پوسٹ کی وجہ سے خوفزدہ ہوگیا اور صاف انکار کر دیا۔ دوسرا ٹیکسی والا سعودی مگر ایک ہاتھ سے معذرر تھا۔ اس کی رہائش مدینہ اور بدر کے درمیان ایک چھوٹے سے گائوں فریش میں تھی۔ وہ فوراً تین سو ریال پر راضی ہو گیا۔ اس کی ٹیکسی ایئرکنڈیشنڈ تھی۔ ہم لوگ ٹیکسی میں بیٹھے تو دل کو یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ بدر جا رہے ہیں۔ جہاں نبی اکرمؐ نے کفار کے خلاف پہلی جنگ لڑی۔ بدر مدینہ سے 98 میل / 100 کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ طبقات کبیر ص 12 کے مطابق آپ ؐ جس راستے سے بدر کی طرف روانہ ہوئے، وہ اردھاء کا راستہ تھا۔ مدینہ سے ٹیکسی میں روانہ ہوئے تو میں نے اپنا سر سیٹ کی پشت پر ٹکالیا۔ میرے ذہن میں چودہ سو سال پہلے مدینہ اور بدر (جو صرف پہاڑی علاقہ تھا) ابھر کر آ گیا۔ جہاں صرف اونٹ اور گھوڑے ہی سفر کر سکتے تھے۔ میرے نبیؐ کی فوج میں صرف دو گھوڑے اور ستر اونٹ تھے۔ 313 مجاہدین باری باری ان پر سفر کرتے تھے۔ اب ان پہاڑوں کو کاٹ کر اتنی ہموار اور مسطح سڑکیں تعمیر کی گئی ہیں کہ سفر کے دوران کہیں کوئی جھٹکا نہیں لگتا۔ چلتی ہوئی گاڑی میں چائے، پانی یا شربت کچھ بھی پئیں، ذرا نہیں چھلکتا اور ایک قطرہ بھی نہیں گرتا۔ مدینہ سے بدر تک پہاڑی سلسلے تھے۔ راستے میں جگہ جگہ کھجور کے باغات اور کئی مقامات پر کھجور سے لدے درختوں کے جھنڈ نظر آئے۔ ہم لوگ صبح چھ بج کر دس منٹ پر بقیع سے روانہ ہوئے۔ راستے میں عرق الطیبہ کے قریب گاڑی کا ٹائر پنکچر ہوگیا، جس کو میرے بیٹے نے بڑی تیزی سے بدلا، کیونکہ ٹیکسی والا ایک ہاتھ سے یہ کام نہیں کر سکتا تھا۔ ہم لوگ ٹیکسی میں مدینہ سے بدر ایک گھنٹہ پچپن منٹ میں پہنچے۔ رسول اکرمؐ نے اونچے اونچے پہاڑوں اور ٹیلوں کو عبور کر کے یہ فاصلہ چار روز میں طے کیا تھا۔ اب سہولتوں کی فراوانی نے راستوں کا سفر آسان اور سہل کر دیا ہے۔ وہاں کے قیام کے دوران دو صحابہ اونٹنیوں پر سوار ہو کر پانی کیلئے بدر کی طرف گئے۔ چاہ بدر پر عورتوں کی گفتگو سے ان کو پتہ چلا کہ قافلہ کل یا پرسوں آئے گا۔ چنانچہ وہ یہ اطلاع دینے کیلئے رسول اکرم ؐ کے پاس تیزی سے لوٹے۔ دوسری طرف ابوسفیان اپنے قافلے کو کچھ دور چھوڑ کر تنہا حالات کا جائزہ لینے کیلئے بدر کی طرف آیا۔ وہاں اس نے ان دونوں انصاریوں کے اونٹوں کی مینگنیاں دیکھیں جو پانی لینے آئے تھے۔ اسے اندازہ ہو گیا کہ مسلمان کہیں قریب ہی جگہ پر قیام پذیر ہیں۔ چنانچہ وہ نہایت تیزی سے اپنے قافلے میں واپس آیا اور ساحل بحر کے قریب سے سفر کر کے اپنے قافلے کو صحیح سلامت نکال کر لے گیا۔ دونوں صحابیوںؓ کی گفتگو کے بعد آپؐ نے حضرت علیؓ، حضرت زبیرؓ اور حضرت سعدؓ کی سرکردگی میں ایک جماعت کو قافلے کے متعلق معلومات کیلئے بدر بھیجا۔ وہاں چشمے پر دو سقے پانی بھرتے ہوئے ملے، ان دونوں کو پکڑ کر حضور اکرمؐ کے پاس لایا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ قریش کا لشکر بدر کے دوسری طرف عقنقل کے ٹیلے
پر موجود ہے اور ان کی تعداد نو سو اور ہزار کے درمیان ہے۔ کچھ صحابہ اپنے سے تین گنا فوج کی تعداد سن کر پریشان ہو گئے، مگر آپؐ نے انہیں تسلی دی اور تمام صحابہ سے آئندہ کیلئے مشورہ طلب کیا۔ حضرت خباب بن المنذرؓ نے عرض کیا ’’حضور! یہ مقام جہاں اس وقت آپ تشریف فرما ہیں، منزل نہیں ہے۔ آپؐ ہمارے ساتھ ایسے مقام پر تشریف لے چلئے، جہاں پانی قوم کے قریب ہو، مجھے اس جگہ اور وہاں کے کنوئوں کا پتہ ہے، اس میں ایک کنواں ہے جس کے پانی کی شیرینی سے میں واقف ہوں۔ یہ کنواں ٹوٹتا نہیں، ہم اس پر حوض بنا لیں گے، خود سیراب ہوں گے، قتال کریں گے اور اس کے سوا باقی کنوئوں کو پاٹ دیں گے۔ طبقات ابن سعد کے مطابق خباب بن المنذرؓ کا مشورہ صائب تھا۔ آپؐ نے اسے قبول فرما لیا اور یہاں سے اٹھ کر اس جگہ قیام، پڑائو کیا، جو عدوۃ الدنیا کے نام سے موسوم ہے۔ یہ مقام بلندی پر اور کسی قدر سخت و پتھریلا تھا۔ وہاں ایک کاریز تھی، اس کے قریب صحابہ کرامؓ نے ایک حوض بنا کر کاریز سے کافی پانی بھر لیا اور اس سے پانی نکالنے کے بہت سے برتن اس میں ڈال دیئے، جس سے قریش کے لشکر نے بھی پانی حاصل کیا۔ آپؐ نے دشمنوں کو بھی پانی لینے سے نہیں روکا۔
ہم لوگ آٹھ بج کر پانچ منٹ پر بدر پہنچے۔ سرسبز و شاداب گھنے درختوں نے سڑک کی خوبصورتی میں اضافہ کر دیا تھا۔ بلدیہ / محافظہ / بقالے سب کچھ اس وادی میں موجود تھا۔ میں اس وادی کی موجودہ سہولیات دیکھ کر پھر بدر کے چودہ سو سال پرانے پہاڑی علاقے میں پہنچ گئی۔ جہاں صحابہ کرامؓ نے عدوۃ الدنیا کے پیچھے ایک پہاڑی ٹیلے پر آپؐ کیلئے ایک سائبان تیار کر دیا تھا تاکہ وہاں سے آپؐ جنگ کا پورا منظر دیکھتے رہیں اور بوقت ضرورت احکامات بھیجتے رہیں۔ اس پہاڑی ٹیلے پر آج کل ایک خوبصورت مسجد ’’عریش‘‘ واقع ہے۔ جہاں ہم لوگوں نے ’’تحیۃ المسجد‘‘ نفل ادا کئے۔ مسجد میں نفل ادا کرتے ہوئے آپؐ کی دعا یاد آئی کہ ’’اگر آج یہ تیرے نام لیوا ختم ہو گئے تو پھر قیامت تک کوئی تیرا نام لینے والا نہ ہو گا‘‘۔ ادھر آپؐ ان انتظامات میں مصروف تھے، ادھر ابوسفیان منزلیں طے کرتا ہوا رابغ کے قریب جحفہ کے مقام پر پہنچا اور جب اسے قافلے کی طرف سے اطمینان ہوگیا تو اس نے ایک تیز رو قاصد بھیج کر لشکر کو واپس لوٹ جانے کا مشورہ دیا، جس کا سربراہ ابوجہل تھا۔ اس نے اپنے غرور اور تکبر کے زعم میں واپس مکہ جانے سے انکار کر دیا اور اپنے لشکر کو عقنقل کے ٹیلے سے نکال کر بدر کے اس مقام پر پہنچ گیا جو عدوۃ القصویٰ کہلاتا ہے۔ دونوں لشکر آمنے سامنے آ گئے۔ مجاہدین کی تعداد گو کم تھی مگر جذبہ شہادت سے لبریز دمکتے چمکتے چہروں نے کفار کے دل میں ایسا رعب ڈالا کہ کافروں کی فوج کے اکثر لوگوں نے جنگ سے پہلے ہی ابوجہل کو واپس لوٹنے کا مشورہ دیا۔ ابوجہل نے لوگوں کی بات ماننے سے انکار کر دیا اور عمرو بن حضرمی (جومسلمان صحابیؓ کے ہاتھوں قتل ہوا تھا اور غزوہ بدر کا اصل محرک یہی تھا) کے بھائی عامر بن حضرمی کو اکسایا کہ یہ لوگ تیرے بھائی کے خون کا بدلہ لینے سے ہچکچا رہے ہیں، لہٰذا تو فریاد شروع کر دے۔ چنانچہ عامر قریشیوں کے درمیان کپڑے پھاڑ کر چلانے لگا ’’وا عمراہ! وا عمراہ‘‘ اس طرح اس کے واویلے اور چیخ پکار سے لوگ جنگ پر آمادہ ہوئے۔ میرے تصور میں یہ سب واقعات فلم کی طرح چل رہے تھے۔ حضور اکرمؐ 17 رمضان المبارک کی شب کے آخری حصے میں اپنی مختصر فوج کو مرتب کر رہے ہیں۔ اس فوج میں انصار کی تعداد 313 ہے، جن میں اوس قبیلے کے 61 اور خزرج قبیلے کے 170 افراد شامل ہیں، مہاجرین کی تعداد 83 ہے۔ آپؐ صف بندی کر کے قطاروں کا معائنہ فرما رہے ہیں، آپؐ کے ہاتھ میں ایک چھڑی ہے، جس سے صف بندی فرما رہے ہیں۔ آپؐ ہدایات بھی جاری فرما رہے ہیں کہ ’’مسلمان صف بندی کو کسی حالت میں نہ توڑیں، جب تک آپؐ حکم نہ دیں، اس وقت تک لڑائی نہ شروع کی جائے۔ جب دشمن دور ہو تو مسلمان تیر چلائیں، جب کافر مسلمانوں کی زد پر آجائیں تو ان کو تیروں سے روکیں، جب دشمن اور قریب آ جائے تو پتھروں سے ماریں، اس سے بھی زیادہ نزدیک آجائیں تو نیزوں اور پھر تلواروں کو کام میں لائیں‘‘۔
اس غزوے میں خدا کی طرف سے ایک اور اچھا انتظام کیا گیا۔ جنگ سے ایک دن پہلے موسلا دھار بارش ہو گئی، جس کی وجہ سے اس حصے کی مٹی جم گئی، جس پر مسلمان تھے اور اس حصے کی ریت دلدل بن گئی، جہاں کفار کا لشکر تھا۔ جنگ کے آغاز کفار کے لشکر میں سے عتبہ، شیبہ اور ولید بن عتبہ نے مبارزت طلب کی۔ آپؐ نے اسلامی فوج میں سے تین انصاری مسلمان عوف بن حارثؓ، معوذ بن حارثؓ اور عبداﷲ بن رواحہ ؓ کو بھیجا۔ لیکن قریشیوں نے ان سے لڑنے سے انکار کر دیا اور قریش نے مہاجرین کو طلب کیا۔ چنانچہ آپؐ نے حضرت علیؓ، حضرت حمزہؓ اور عبیدہؓ کو بھیجا۔ تینوں مشرک سردار مارے گئے۔ لیکن حضرت عبیدہؓ بھی شدید زخمی ہوئے اور بدر سے واپسی پر صغراء کے مقام پر انتقال کر گئے۔
قریش نے اپنے آدمیوں کو مرتے دیکھا تو پورے لشکر کو آگے بڑھا دیا۔ آپؐ نے بھی اپنے فوجی دستے کو دشمن کے دائیں بازو پر حملے کا حکم دیا۔ ابوجہل، ابوالبختری، زمعہ، امیہ بن خلف، ربیہ بن حجاج جیسے بڑے بڑے بہادر کافر مارے گئے۔ میں چشم تصور میں دیکھ رہی تھی کہ سخت جنگ کے بعد قریش کی فوج راہ فرار اختیار کر چکی ہے۔ کچھ لوگ بھاگتے ہوئے قتل ہوئے، کچھ اسیر ہوئے، ستر کافر مارے گئے ، ستر ہی قیدی بنا لئے گئے۔
اب میں اس جگہ کھڑی تھی، جہاں شہداء بدر کے نام ایک تختی پر لکھے ہوئے تھے۔ چھ مہاجرین اور آٹھ انصار تھے۔ مسلمانوں نے کچھ دور تک اس شکست خوردہ لشکر کا تعاقب کیا۔ پھر واپس آ کر آپؐ نے ابن رواحہؓ کو مدینہ بھیج کر فتح کی خوشخبری اہل مدینہ کو سنائی۔ آپؐ خود صحابہ کرامؓ کے ساتھ تین دن بدر میں قیام پذیر رہے۔ شہداء کو دفن کیا اور مشرکین کی لاشوں کو بھی ایک گڑھے میں بھروا کر پاٹ دیا۔ آپؐ نے یہیں مال غنیمت تقسیم فرمایا۔ میں نے شہداء بدر کے ساتھ کفار کے نام دیکھنے کی بہت کوشش کی، مگر ان کا کہیں دور دور تک نام و نشان نہ تھا۔ مسلمان شہداء کے نام قیامت تک اسی طرح تابندہ رہیں گے۔ آپؐ نے وادی صغراء میں تشریف لا کر مال غنیمت تقسیم کیا اور ایک قیدی نضر بن حارث کو قتل کرنے کا بھی حکم دیا، جس کو حضرت علی ؓ نے مارا۔ مقام عرق الطیبہ میں پہنچ کر عقبہ ابی معیط کو قتل کر ڈالا۔
جو کافر آپؐ کے حکم سے قیدی بنائے گئے ان کے ساتھ آپؐ نے اچھا برتائو کرنے کی ہدایت کی۔ مسلمان ان قیدیوں کو سواریوں پر بٹھائے اور خود پیدل چلتے، خود کھجور کھاتے اور قیدیوں کو روٹی کھلاتے، اسیران جنگ کا فدیہ چار ہزار درہم مقرر ہوا تھا، جو لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے اور فدیہ نہیں دے سکتے تھے ان کو حکم ہوا کہ دس دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں تو ان کو چھوڑ دیا جائے گا۔ ہم لوگوں نے شہداء پر فاتحہ پڑھی اور ان کے بلند ترین درجات کے لئے دعا کی۔ آگے بڑھے تو دھوپ کی تپش کی وجہ سے پیاس محسوس ہوئی۔ بقالے سے Mango Juice اور ٹھنڈے پانی کی بوتلیں لیں۔ ٹیکسی والے کا اصرار تھا قریب ہی فریش کے مقام پر اس کا گھر ہے۔ تھوڑی دیر گرمی میں اگر سستا لیا جائے تو کوئی حرج نہیں۔ اس نے بتایا کہ وہ فریش میں ہی پیدا ہوا۔ یہیں پلا بڑھا، یہیں اس نے دو شادیاں کیں۔ ایک بیوی مدینہ میں رہتی ہے اور ایک فریش میں۔ اس نے ہم لوگوں کی رضا مندی دیکھتے ہوئے ایک دو منزلہ مکان پر ٹیکسی روک دی۔ ہم لوگ اندر داخل ہوئے، دروازے سے دبیز قالین اور خوبصورت کشن لگے ہوئے تھے۔ ایک طرف بکری بندھی ہوئی تھی۔ اس نے بتایا کہ اس کے چودہ بچے ہیں۔ اس کمرے سے آگے دروازے میں داخل ہوئے تو گرے مخمل کے پردے، گرے پھولدار قالین گرے صوفے، درمیان میں جدید ترین کرسٹل کے ٹکڑوں پر مشتمل شیشے کی میز۔ ٹھنڈا کمرہ اس وقت واقعی بہت اچھا لگا۔ جون جولائی میں مدینہ میں گرمی بہت ہوتی ہے۔ ہم لوگوں کی تواضع گھر کے بکری کے دودھ دہی کی نمکین ٹھنڈی لسی سے کی گئی۔ ہم لوگ تھوڑی دیر اس کی مہمانداری کا لطف لے کر مدینہ روانہ ہوئے اور ظہر کی اذان سے پہلے مسجد نبویؐ پہنچ گئے۔٭
Next Post