امام بخاریؒ و مسلمؒ یہ حدیث بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ عطاء بن ابیرباحؒ حضرت ابن عباسؓ کے ساتھ کھڑے تھے کہ سامنے سے کالے رنگ کی ایک لونڈی گزری۔ ابن عباسؓ نے عطائؒ کی طرف دیکھ کر کہنے لگے: تمہارا کیا خیال ہے، کیوں نہ تمہیں ایک جنتی عورت دکھائوں؟ حضرت عطائؒ نے تعجب سے کہا: ایک جنتی عورت؟
حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا: ہاں ایک عورت ہے، جب وہ وفات پا جائے گی تو جنت میں جائے گی۔ عطاء نے تعجب کیا۔ کہنے لگے کہ مجھے دکھائیں، وہ کون سی خوش نصیب خاتون ہے جو جنتی ہے، ہمارے درمیان رہتی ہے، بازاروں، گلیوں میں چلتی پھرتی ہے۔ ابن عباسؓ نے کالے رنگ کی اس بوڑھی لونڈی کی طرف اشارہ کیا۔ کہنے لگے کہ وہ بوڑھی عورت جنتی ہے۔ حضرت عطائؒ نے پوچھا: ابن عباس! آپ کو کیسے معلوم کہ وہ جنتی ہے؟
جواب دیا: کئی سال گزرے یہ کالی کلوٹی لونڈی رسول اکرمؐ کے پاس آئی، تب اس کو مرگی کے دورے پڑتے تھے۔ اس نے رسول اکرمؐ کے پاس آکر شفا کیلئے دعا کی درخواست کی۔ وہ کہنے لگی: ’’میری زندگی اجیرن ہوگئی ہے، بچے مجھ سے ڈرتے ہیں، میرا مذاق اڑاتے ہیں، مجھ پر ہنستے ہیں۔ میں بازار میں ہوں یا گھر میں، یا لوگوں کے پاس، اچانک مجھے دورہ پڑتا ہے اور مجھے ہوش نہیں رہتا۔ میں اس زندگی سے تنگ آچکی ہوں۔ آپ! دعا فرمائیں کہ وہ مجھے شفا عطا فرمائے۔‘‘
رسول اقدسؐ نے چاہا کہ صحابہ کرامؓ کو صبر پر درس دیں۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم چاہو تو صبر سے کام لو اور اس کے عوض تمہارے لئے جنت ہے اور اگر چاہو تو میں تمہاری شفا کیلئے خدا سے دعا کردوں۔‘‘
رسول اکرمؐ نے جب بات ختم فرمائی تو اس عورت نے غور و فکر کیا۔ سوچا، اپنے حالات اور اپنی بیماری کو دیکھا۔ آپؐ کے فرمان کو اپنے دل میں دہرایا۔ اب وہ دونوں میں فیصلہ کرنا چاہ رہی تھی کہ کس کو اختیار کرے۔ صبر کو یا دنیاوی آرام کو؟ سوچا، غور کیا کہ دنیا تو فانی ہے، اسے ایک دن ختم ہو جانا ہے۔ میں جنت کی طلب گار کیوں نہ بنوں، اس کی چاہت کیوں نہ کروں؟ اور پھر اس نے اپنا فیصلہ صادر کردیا: ’’حضور! میں صبر سے کام لوں گی، لیکن جب مجھے مرگی کا دورہ پڑتا ہے تو میں بے پردہ ہو جاتی ہوں، اس لئے آپ حق تعالیٰ سے دعا فرما دیں کہ وہ مجھے بے پردہ نہ کرے۔‘‘
رسول اکرم ﷺ نے اس کے حق میں دعا فرما دی۔ (بخاری 5652 ومسلم : 2576)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post