شیخ جیلانی اور صحابی جن

0

حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے جب حج کیا تو آپ کے ساتھ مریدین بھی چلے تھے۔ یہ جب بھی کسی منزل پر اُترتے ان کے پاس سفید کپڑے پہنے ایک جوان آ موجود ہوتا، مگر نہ تو وہ ان کے پاس کھاتا تھا نہ پیتا تھا اور حضرت شیخ عبد القادر جیلانیؒ نے اپنے مریدوں کو تاکید کر رکھی تھی کہ وہ اس سے بات چیت نہ کریں۔
چنانچہ جب یہ مکہ مکرمہ میں داخل ہوئے تو ایک گھر میں جا کر قیام کیا، لیکن جب یہ لوگ گھر سے نکلتے تھے تو وہ شخص داخل ہوتا تھا اور یہ داخل ہوتے تو وہ نکل جاتا تھا۔ ایک مرتبہ سب لوگ نکل گئے، مگر بیت الخلا میں ایک شخص باقی رہ گیا تھا۔ اسی دوران میں وہ داخل ہوا، جب کہ اس کو کسی نے نہیں دیکھا تھا۔ اس نے تھیلی کھولی اور کچھ نکال کر کھانا شروع کر دیا تو وہ جوان بیت الخلا سے نکلا اور اس کی نگاہ اس پر جا پڑی تو وہ وہاں سے چلا گیا، پھر کبھی بھی ان کے پاس نہ آیا تو اس شخص نے حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کو اس کی اطلاع کی تو آپ نے فرمایا: یہ شخص اُن جنات میں سے تھے، جنہوں نے آنحضرتؐ سے قرآن پاک سنا تھا (اور جنات میں شرف صحابیت حاصل کیا تھا) (ارجوزۃ الحان لابن عمادؒ)
حضرت ابراہیم خواصؒ فرماتے ہیں: ایک سال میں حج کے لیے گیا، راستے میں یکایک میرے دل میں خیال گزرا کہ تو سب سے علیحدہ ہو کر شارع عام چھوڑ کر چل۔ چنانچہ میں عام راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلنے لگا۔ میں تین دن رات برابر چلتا گیا، مجھے کھانے کا خیال آیا نہ پینے کا، نہ کوئی دوسری حاجت پیش آئی۔ آخرکار ایک ہرے بھرے جنگل میں گزر ہوا، جہاں میوے دار درخت اور خوشبو دار پھول تھے۔
وہاں ایک چھوٹا سا تالاب تھا، میں نے اپنے دل میں کہا یہ تو جنت ہے، اس سے میں بہت حیران تھا اور فکر میں تھا کہ لوگوں کی ایک جماعت آتی ہوئی نظر پڑی، جن کا چہرہ آدمیوں جیسا تھا، نفیس پوشاک، خوب صورت پٹکے سے آراستہ، آتے ہی ان لوگوں نے مجھے گھیر لیا اور سب نے سلام کیا، میں نے سلام کا جواب دیا، پھر میرے دل میں خیال گزرا کہ شاید یہ لوگ جن ہیں اور یہ عجیب و غریب قوم ہے۔
اتنے میں ایک شخص ان میں سے بولا ہم لوگوں میں ایک مسئلہ درپیش ہے اور باہم اختلاف ہے اور ہم لوگ جن قوم ہیں۔ ہم نے خدائے بزرگ کا کلام جناب رسالت پناہ پیغمبر خداؐ کی زبانِ مبارک سے سن کر لیلتہ العقبہ میں شرفِ حضوری حاصل کیا۔ آپؐ کے کلام مبارک نے ہماری تمام دنیا کے کام ہم سے لے لیے اور خداوند تعالیٰ نے یہ مقام اس جنگل میں ہمارے لیے مقرر فرما دیا ہے۔
میں نے دریافت کیا کہ جس مقام پر میرے ہمراہی ہیں، یہاں سے کتنے فاصلے پر ہے؟ یہ سن کر ان میں سے ایک مسکرایا اور کہا اے ابو اسحاق خداوند عالم کے اسرار و عجائبات میں یہ مقام جہاں اس وقت تو ہے ایک انسان کے سوا آج تک کوئی نہیں آیا اور وہ انسان تیرے ساتھیوں میں سے تھا، اس نے یہاں وفات پائی اور دیکھو وہ اس کی قبر ہے اور اس کی قبر کی جانب اشارہ کیا، وہ قبر تالاب کے کنارے تھی۔ اس کے گرد باغیچہ تھا، جس میں پھول کھلے ہوئے تھے، ایسے پھول اور خوش نما باغ میں نے کبھی نہ دیکھے تھے۔ پھر اس جن نے کہا تیرے ساتھیوں اور تیرے درمیان اس قدر مہینوں یا برسوں کا فاصلہ ہے۔ خدا جانے کیا ذکر کیا مہینے کہے یا سال۔
ابراہیمؒ کہتے ہیں میں نے ان جنوں سے کہا کہ اس جوان کا کچھ حال بیان کرو، ایک ان میں سے بولا ہم یہاں تالاب کے کنارے بیٹھے ہوئے محبت کا ذکر کر رہے تھے، اس میں گفتگو ہو رہی تھی کہ اچانک ایک شخص پہنچا اور ہمیں سلام کیا۔ ہم نے جواب دیا اور دریافت کیا کہاں سے آئے ہو؟ کہا نیشاپور سے۔ ہم نے کہا کب چلے تھے؟ کہا سات دن ہوئے۔ پھر ہم نے گھر سے نکلنے کی وجہ پوچھی؟ کہا میں نے خدا کا یہ کلام پڑھا ’’خدا کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرمانبردار ہو جائو قبل اس کے کہ تم پر عذاب آئے پھر تمہاری مدد نہ ہوگی۔‘‘
ہم نے کہا انابت، تسلیم اور عذاب کے کیا معنی؟ جواب دیا، انابت یہ ہے کہ اپنے رب سے رجوع کر کے اس کا ہو رہے۔ راوی کا بیان ہے کہ اصل قصہ میں تسلیم کا ذکر نہیں، شاید تسلیم کے معنی یہ ہیں کہ اپنی جان اس کے سپرد کر دے اور یہ جانے کہ خدا میری بہ نسبت اس کا زیادہ مالک و مستحق ہے، پھر کہا اور عذاب اور ایک چیخ ماری اور مر گیا۔
ہم لوگوں نے اسے یہاں دفن کر دیا اور یہی اس کی قبر ہے۔ خدا اس سے راضی ہو۔ ابراہیمؒ کہتے ہیں کہ مجھے ان کے بیان اوصاف سے تعجب ہوا۔ پھر میں قبر کے پاس گیا تو اس کے سرہانے نرگس کے پھولوں کا ایک بہت بڑا گلدستہ رکھا ہوا تھا اور یہ عبارت لکھی ہوئی دیکھی ’’یہ خدا کے دوست کی قبر ہے، اسے غیرت نے مارا ہے‘‘ اور ایک ورق پر انابت کے معنی لکھے تھے کہتے ہیں جو کچھ لکھا تھا میں نے پڑھا۔ قوم جن نے بھی اس کے معلوم کرنے کی درخواست کی۔ میں نے بیان کیا تو بڑے خوش ہوئے اور کہا ہمیں ہمارے مسئلے کا جواب مل گیا۔
ابراہیمؒ کہتے ہیں پھر میں سو گیا اور مجھے ہوش نہ آیا اور نیند سے بیدار ہوا تو (مکہ مکرمہ میں) حضرت عائشہؓ کی مسجد کے پاس اپنے آپ کو دیکھا، میرے پاس پھولوں کی پنکھڑیاں تھیں، جن کی خوشبو سال بھر تک رہی۔ پھر وہ خود بخود گم ہوگئیں۔ (روض الریاحین من حکایات الصالحین امام یافعی یمنیؒ)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More