سادہ شادی بابرکت زندگی

0

حصہ دوم
شاہ شجاع کرمانیؒ کی ایک لڑکی جوان تھی اور یہ چاہتے تھے کہ کسی دیندار آدمی سے اس کا نکاح کردیں، اس زمانے میں دینداری کی بڑی علامت، احسان الصلوٰۃ تھی، یعنی نماز کو پورے آداب اور خشوع کے ساتھ اس طرح ادا کرنا گویا نمازی خدا تعالیٰ کو دیکھ رہا ہو، خدا تعالیٰ اسے دیکھ رہا ہے۔
حضرت شاہ شجاعؒ نیک و صالح آدمی کی تلاش میں تھے، ایک روز مسجد میں ایک نوجوان کو دیکھا کہ اچھی طرح خشوع و خضوع سے نمار پڑھ رہا ہے۔ اسی وقت ارادہ کرلیا کہ اس نوجوان سے شادی کرادیں گے۔
جب وہ نماز سے فارغ ہوا تو اس کے پاس جا کر سلام کیا اور حال پوچھا کہ کہاں کے رہنے والے ہیں، خاندان کونسا ہے؟ معلوم ہوا کہ شریف آدمی ہے، مگر غریب اور مفلس۔
شاہ شجاعؒ نے اس سے پوچھا: آپ کی شادی کہیں ہوگئی ہے یا نہیں؟
اس نے کہا: اجی! میں ایک غریب اور مفلس آدمی ہوں، مجھے کون اپنی لڑکی دے گا؟ انہوں نے کہا کہ ناامید کیوں ہوتے ہو، تم نے کہیں کوئی پیغام بھی دیا ہے؟
اس نے کہا کہ جب مجھے معلوم ہے کہ میرا پیغام رد کیا جائے گا تو میں کیوں خواہ مخواہ پیغام دے کر رسوا ہوں؟ انہوں نے فرمایا کہ اچھا تم اس پر راضی ہو کہ شاہ شجاع کرمانی کی لڑکی کی شادی تم سے ہو جائے؟
نوجوان نے کہا کہ حضرت کیوں میرے ساتھ دل لگی کرتے ہیں، کہاں میں اور کہاں شاہ شجاع! نام بھی لوں گا تو پٹوں گا، اب انہوں نے ظاہر کر دیا کہ میں ہی شاہ شجاع کرمانی ہوں اور اپنی لڑکی کا عقد تم سے کرنا چاہتا ہوں، اس پر بھی نوجوان نے کہا کہ اگر آپ راضی ہیں تو کیا ضروری ہے کہ آپ کی بیٹی بھی راضی ہو جائے۔ فرمایا کہ میں اس سے دریافت کرچکا ہوں، وہ راضی ہے۔
اب تو نوجوان نے خدا تعالیٰ کا شکر ادا کیا، میں کہاں اس قابل تھا، شاہ شجاعؒ نے اسی وقت نکاح پڑھا اور اسی وقت کوئی چادر یا برقع اڑھا کر لڑکی کو اٹھا کر اس نوجوان کے گھر لے گئے۔
گھر کیا تھا، بس ایک شکستہ مکان تھا، کسی سامان کا نام نشان نہ تھا، لڑکی دروازے کے اندر داخل ہوئی تو اپنے والد شاہ شجاعؒ سے کہا کہ ابا جان آپ نے مجھے کہاں ڈبو دیا ہے؟
نوجوان نے سن کر کہا کہ دیکھئے، میں آپ سے کہتا تھا نا کہ لڑکی میری ایسی تنگ دستی کی حالت پر کیسے راضی ہو سکتی ہے؟
اب تو لڑکی خود بولی کہ آپ نے کیا سمجھا ہے کہ میں نے اپنے والد صاحب سے کسی چیز کی شکایت کی ہے؟ بات یہ ہے کہ میرے والد نے مجھ سے کہا تھا کہ میں تمہارا نکاح ایک زاہد شخص کے ساتھ کرنا چاہتا ہوں۔
میں اس پر راضی ہوگئی، مگر میں جب آپ کے گھر میں داخل ہوئی تو ایک گھڑے پر باسی روٹی رکھی ہوئی نظر آئی، میں نے اس کو زہد کے خلاف سمجھا کہ روٹی باسی بچا کر رکھی جائے، اس لئے والد صاحب سے شکایت کی کہ مجھ کو کہاں ڈبو دیا؟ یہ آدمی تو زاہد نہیں ہے، باسی روٹیاں اٹھا کر رکھتا ہے۔
اس پر نوجوان نے کہا کہ میرا آج روزہ ہے، خیال یہ تھا کہ شام کو افطار کے لیے باسی روٹی اٹھا کر رکھ لوں کہ تکلیف نہ ہو، لڑکی نے کہا کہ میرے نزدیک یہی تو زہد و توکل کے خلاف ہے، جس کے لیے روزہ رکھا ہے، اس پر تو اطمینان نہیں کہ وہ افطاری بھی دے گا۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More