عباس ثاقب
میں نے ناصر کی تائید کرتے ہوئے اضافہ کیا۔ ’’اب یہ خیال رکھنا بھی ضروری ہے کہ رخسانہ اور جمیلہ کی یہاں موجودگی کو مکمل صیغہ راز میں رکھا جائے۔ کیونکہ انہیں بھی پاگلوں کی طرح تلاش کیا جارہا ہوگا۔ کشمیری نسل کی دو غیر معمولی خوب صورت، جواں سال لڑکیاں، جو تازہ تازہ کہیں سے آکر مقیم ہوئی ہوں۔ مجھے امید ہے کہ ہم گھر کے کاموں کی ذمہ دار خاتون پر مکمل اعتماد کرسکتے ہیں‘‘۔
میری سوالیہ نظروں پر ناصر نے کہا۔ ’’آپ بے فکر ہو جائیں۔ حامدہ خالہ میرے لیے والدہ کی طرح ہیں۔ ان کا دنیا میں اور کوئی نہیں ہے اور نہ ہی وہ محلے والوں میں کسی سے کوئی واسطہ یا جان پہچان رکھتی ہیں۔ اس کے باوجود میں انہیں صورتِ حال کی نزاکت سمجھا کر مزید احتیاط برتنے کو کہہ دوں گا‘‘۔
میں نے اس کی یقین دہانی پر اطمینان کا اظہار کیا۔ دونوں لڑکیاں کھانا پکانے میں مدد دینے کے لیے حامدہ خالہ کے پاس باورچی خانے میں گھسی ہوئی تھیں، لہٰذا میں نے مناسب سمجھا کہ رخسانہ اور جمیلہ سے اپنی گفتگو کا خلاصہ بیان کردوں۔ اس کے ساتھ ہی میں نے یاسر بھائی سے ایک بار پھر معذرت کی کہ میری نامناسب جلد بازی سے انہیں اس ناخوش گوار صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑا۔
یاسر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ’’بھائی، اب اس معاملے کو بار بار نہ اٹھاؤ۔ جو ہوا، اچھا ہی ہوا۔ اب جب کہ مجھے ان دونوں خواتین کے جائز موقف کا پتا چل گیا ہے تو رہا سہا گلہ شکوہ بھی دور ہوگیا ہے‘‘۔
اس دوران میں ظہیر کچھ اور ہی سوچوں میں کھویا ہوا تھا۔ اس نے اچانک کہا۔ ’’یاسر بھائی ، آپ نے پولیس کی سرگرمیوں کے حوالے سے جوکچھ بتایا، اس کے مطابق انہیں مشکوک جیپ اور اس میں سوار دو مرد اور دو خواتین ملزمان کی تلاش ہے‘‘۔
یاسر نے اثبات میں سر ہلایا۔ میں بھی ظہیر کی طرف متوجہ ہوگیا۔ اس نے سنجیدہ لہجے میں بات آگے بڑھائی۔ ’’میرے اس سوال کا مقصد یہ پوچھنا ہے کہ اگر یہاں چھپ کر بیٹھنے کے بجائے، میں اسلحے کی خریداری کی کوششیں آگے بڑھاؤں، تو اس میں تو اتنا خطرہ نہیں ہوگا۔ میں جیپ کے بچائے موٹر سائیکل استعمال کروں گا‘‘۔
ظہیر نے میری رائے میں بہت مناسب بات کی تھی۔ مانک کے قتل اور تجوری کا صفایا کرنے کی کارروائی میں شریک فرد کی حیثیت سے اس کی شناخت کا امکان ویسے بھی بہت کم تھا۔ کیونکہ اسے دیکھنے والے دونوں ہی افراد جہنم رسید ہو چکے تھے۔ کافی حد تک مطمئن ہونے کے باوجود میں نے پوچھا۔ ’’تمہیں اس سلسلے میںکہاں کہاں جانا ہوگا؟‘‘۔
ظہیر نے کہا۔ ’’ویسے تو کئی جگہ قسمت آزمائی کروں گا، لیکن میری توجہ کا اصل مرکز کپورتھلا ہے۔ مجھے کسی نے بتایا تھا کہ شہر سے دو ڈھائی میل کے فاصلے پر واقع ڈوگراں والا گاؤں کے ایک زمیں دار شکتی ببر کے پاس انگریز فوج سے چوری کیے گئے ایمونیشن کی بھاری مقدار موجود ہے۔ جن میں تھری ناٹ تھری رائفل، اسٹین گن اور بارہ بور شاٹ گن کے کارتوس شامل ہیں‘‘۔
میں نے مشورہ طلب نظروں سے یاسر اور ناصر کی طرف دیکھا۔ انہوں نے اثبات میں سر ہلاکر ظہیر کے ارادے پر رضامندی کا اظہار کیا۔ اس نے پُر جوش لہجے میں اپنی بات آگے بڑھائی۔ ’’مجھے عظمت اللہ خان کے ایک قریبی دوست کی زبانی شکتی ببر کا پتا چلا تھا۔ وہ ہندوستان کی تقسیم سے دو سال پہلے انگریز سرکار کی فوج میں شاید صوبیدار تھا، لیکن کسی سنگین خلافِ ضابطہ حرکت کی وجہ سے اس کے خلاف کورٹ مارشل کا آرڈر جاری ہوگیا تھا۔ فوجی عدالت میں حاضر ہوکر الزامات کا سامنا کرنے کے بجائے وہ اپنی فوجی کمپنی کا اسلحہ خانہ لوٹ کر روپوش ہوگیا اور ملک بننے کے بعد ہی منظر عام پر آیا۔ بندوقیں تو شاید اس نے سب بیچ ڈالی تھیں۔ البتہ گولیوں کا بھاری ذخیرہ اب بھی اس کے قبضے میں ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’وہ تو ٹھیک ہے بھائی، لیکن ایک قطعی انجان شخص سے اسلحہ خریدنے کی کوشش خطرناک بھی ثابت ہو سکتی ہے۔ شکتی خود نہ سہی، معاملے میں رازدار کوئی اور شخص پولیس میں مخبری کرسکتا ہے۔ ہوسکتا ہے تم سے سودا کرکے رقم وصول کرنے کے بعد شکتی خود تمہیں گرفتار کروادے۔ ظاہر ہے، اتنی بڑی مقدار میں ایمونیشن خریدنے والا شخص اس کی نظر میں کوئی ملک دشمن ہی ہوسکتا ہے۔ وہ مال بھی کمالے گا اور دیش بھگت بھی بن جائے گا‘‘۔
ظہیر نے مجھے اطمینان دلانے کی کوشش کی کہ شکتی کا دھند ا ہی یہی ہے۔ لیکن اس نے شاید دیش دروہی (ملک دشمن) سمجھے جانے کے پہلو پر زیادہ غور نہیں کیا تھا۔ اسے سمجھ آگئی کہ سو پچاس کارتوس خریدنے والے مقامی باشندے اور ہزاروں گولیوں کا سودا کرنے والے بظاہر غیر مقامی شخص کا معاملہ بالکل الگ نوعیت رکھتا ہے۔
کچھ سوچنے کے بعد اس نے کہا۔ ’’آپ کی بات میں وزن ہے بھائی، لیکن آپ ہی بتائیے، پھر میں کیا طریقہ اختیار کروں؟‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’بھائی، مجھے ذرا مزید سوچنے کا موقع دو۔ ذہن میں ایک منصوبے کا ہلکا سا خاکہ موجود ہے۔ اسے تفصیلی شکل دینی پڑے گی۔ میں چاہتا ہوں کہ تم اسی شخص سے اپنا مطلوبہ اسلحہ حاصل کرو، لیکن مخبری کے خطرے سے محفوظ رہ کر‘‘۔
میری بات سن کر ظہیر نے پُرجوش لہجے میں کہا۔ ’’جمال بھائی ایسا ہوجائے تو سارا مسئلہ ہی حل ہوجائے گا۔ اگر برا نہ مانیں تو اپنے منصوبے میں ہمیں بھی شریک کرلیں۔ شاید ہم مل کر اسے جلد حتمی شکل دے سکیں اور اس میں موجود ممکنہ کمزوریوں یا خامیوں کی بھی نشان دہی کر سکیں‘‘۔
ناصر اور یاسر نے بھی اس کی تائید کی۔ کشمیر کی آزادی کے لیے اہم کسی منصوبے میں بطور مشیر شمولیت کے امکان سے وہ بھی خوش اور پُرجوش نظر آرہے تھے۔ میں نے ظہیر کو مخاطب کرکے کہا۔ ’’پہلے مجھے یہ بتاؤ کہ وہ شخص شکتی ببر سیاسی اور سماجی اعتبار سے کتنا طاقت ور اور بارسوخ ہے؟ میرا مطلب ہے اسلحے کی فروخت کا یہ دھندا وہ چوری چھپے کر رہا ہے یا علاقے کی انتظامیہ اور پولیس وغیرہ بھی اس کی سرگرمیوں کی سرپرستی کر رہی ہے؟‘‘۔
ظہیر نے تھوڑی دیر غور کرنے کے بعد کہا۔ ’’شکتی ببر کی سرگرمیوں کے بارے میں اطلاع دینے والے شخص کی گفتگو سے میں نے اندازہ لگایا تھا کہ شکتی بمشکل درمیانے درجے کا زمیندار ہے۔ آدھے مربعے زمین پر فصلیں اگاکر اور مال مویشی کی خرید و فروخت کر کے گزارا کرتا ہے‘‘۔
میں نے کہا۔ ’’پھر تو کامیابی کی امید کی جا سکتی ہے اور خطرہ درپیش ہونے پر وہاں سے باآسانی رفو چکر بھی ہوا جاسکتا ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ میرے ذہن میں جو منصوبہ ہے، اس کی موثر انداز میں تکمیل کے لیے کم ازکم دو افراد درکار ہیں۔ یعنی مجھے بھی تمہارے ساتھ میدان میں اترنا پڑے گا‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭