فرمان باری تعالیٰ ہے:
ترجمہ: ’’آپؐ ان سے کہہ دیجئے کہ جس موت سے تم بھاگتے ہو وہ تم کو آپکڑے گی، پھر تم اس پاک ذات کی طرف جائے جاؤ گے جو ہر پوشیدہ اور ظاہر بات کو جاننے والی ہے، پھر وہ تم کو سب کئے ہوئے کام جتائے گی (اور ان کا بدلہ دے گی)‘‘ (سورہ جمعہ رکوع1 )
موت ایک ایسی حقیقت ہے جس کو کثرت سے یاد رکھنا امیدوں کو مختصر ہونے کا سبب ہے۔ دنیا کی طرف بے اعتنائی کا ذریعہ ہے، گناہوں سے توبہ کرتے رہنے پر ابھارنے کا سبب ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ حضور اکرمؐ کی مجلس میں ایک نوجوان کھڑے ہوئے اور عرض کیا ’’حضور! مؤمنین میں سب سے زیادہ سمجھ دار کون ہے؟‘‘
آپؐ نے فرمایا ’’موت کو کثرت سے یاد کرنے والا اور اس کے آنے سے پہلے اس کیلئے بہترین تیاری کرنے والا۔‘‘
آپؐ نے مَردوں کو قبرستان جانے کی ہدایت کی، کیوں کہ قبر کی زیارت موت کو یاد دلاتی ہے۔ دنیا سے بے رغبتی پیدا ہوتی ہے اور آخرت کی تیاری کیلئے انسان کمر بستہ ہوجاتا ہے۔ آپؐ نے مردوں کو غسل دینے کا حکم دیا کہ یہ (نیکیوں سے) خالی بدن کا علاج ہے اور اس سے انسان کو نصیحت اور عبرت حاصل ہوتی ہے۔ آپؐ نے فرمایا ’’بیماروں کی عیادت کیا کرو اور جنازوں کے ساتھ جایا کرو کہ یہ آخرت کی یاد دلاتا ہے۔‘‘
حضرت حسن بصریؒ کا ارشاد ہے کہ تعجب اور بہت زیادہ حیرت ان لوگوں پر ہے، جن کو (آخرت کے) سفر کیلئے توشہ تیار کرلینے کا حکم ملا ہوا ہے اور روانگی کا اعلان بھی ہو چکا ہے، مگر پھر بھی یہ لوگ کھیل میں مشغول ہیں۔ مشکوٰۃ شریف میں حضور اکرمؐ نے فرمایا ’’مؤمن بندہ مر کر دنیا کی مشقتوں اور تکلیفوں سے راحت پالیتا ہے اور خدا تعالیٰ کی رحمت کے اندر چلا جاتا ہے اور فاجر شخص کی جب موت وارد ہوتی ہے تو دوسرے لوگ اور آبادیاں، درخت، جانور سب اس کی موت سے راحت پاتے ہیں۔‘‘ اس کے گناہوں کی وجہ سے دنیا میں آفات نازل ہوتی ہیں، بارش بند ہو جاتی ہے، شہروں میں فتنہ و فساد ہوتا ہے، درخت خشک ہونے لگتے ہیں، جانوروں کو چارہ ملنا مشکل ہو جاتا ہے۔ مشکوٰۃ میں حضرت ابن عمرؓ فرماتے ہیں کہ حضور اکرمؐ نے ایک مرتبہ میرا مونڈھا پکڑ کر فرمایا کہ دنیا میں ایسے رہو جیسے کوئی اجنبی بلکہ مسافر ہوتا ہے، جب تو صبح کرے تو شام کا انتظار نہ کر اور جب شام کرے تو صبح کا انتظار نہ کر اور صحت کے زمانے میں مرض کے زمانہ کیلئے توشہ لے (کہ جو اعمال تندرستی میں کرتا ہوگا، بیماری کی حالت میں ان کا ثواب ملتا رہے گا) اور اپنی زندگی میں موت کیلئے تیاری کرلے۔‘‘ (مشکوٰۃ) موت کو یاد کرنا توبہ کا سبب بنتا ہے۔ اس سے مال میں قناعت نصیب ہوتی ہے، عبادت میں سکون اور اطمینان ملتا ہے۔ موت سے غفلت گناہوں کے ارتکاب کا باعث ہوتی ہے۔ انسان کی ہوس دنیا اور حرص زر میں اضافہ ہوتا ہے، عبادت سے بے نیازی آجاتی ہے۔ سمجھدار ہے وہ شخص جو اپنے نفس پر قابو رکھے اور موت کے بعد کام آنے والی چیزوں میں مشغول رہے اور کسی بھی کام کے لئے اس کی تیاری ضروری ہے۔ جو شخص دنیا کے مشاغل میں الجھا رہے اس کے دل موت کے ذکر اور اس کے خیال سے غافل ہو جاتا ہے۔
موت کے بارے میں انسان کے چار قسم کے رویئے ہوتے ہیں۔
1۔ وہ لوگ جو دنیا میں مشغول اور مصروف ہیں اور ان کو موت کا ذکر اس لئے اچھا نہیں لگتا کہ ان سے یہ ساری لذتیں چھوٹ جائیں گی، ایسا شخص موت کے ذکر سے گھبراتا ہے۔
2۔ دوسرا وہ شخص ہے جو رب کی طرف رجوع کرنے والا تو ہے، مگر موت کے ذکر اس کیلئے خوف زدہ ہوتا ہے کہ
اس کی توبہ ابھی پختہ نہیں ہوئی۔ وہ اپنی اصلاح کی خاطر ابھی موت کو اپنے اوپر وارد نہیں دیکھنا چاہتا، کیوں کہ اپنی کوتاہی اور تقصیر سے ڈرتا ہے۔
3۔ تیسرا شخص وہ ہے، جس کی توبہ کامل ہے اور موت کو محبوب رکھتا ہے، موت کو خدا سے ملاقات کا وقت سمجھتا ہے۔ وہ موت کو ہر وقت کثرت سے یاد کرتا ہے۔
حضرت حذیفہؓ اپنے انتقال کے وقت فرمانے لگے ’’محبوب سے ملنے کا وقت آگیا۔ خدایا تجھے معلوم ہے کہ ہمیشہ مجھے فقر غنا سے زیادہ محبوب رہا اور بیماری صحت سے زیادہ پسندیدہ رہی اور موت زندگی سے زیادہ مرغوب رہی، مجھے جلدی موت دے تاکہ تجھ سے ملوں۔
4۔ چوتھا شخص وہ ہے جو رتبے کے لحاظ سب سے بلند ہے۔ کیوں کہ وہ خدا کی رضا کے مقابلہ میں تمنا بھی نہیں رکھتا، وہ اپنی خواہش سے اپنے لئے نہ موت کو پسند کرتا ہے نہ زندگی کو۔ یہ لوگ عشق کی انتہا میں رضا اور تسلیم کے درجے پر فائز ہوتے ہیں۔
آپؐ کا ارشاد ہے ’’لذتوں کو توڑنے والی چیز (موت) کو کثرت سے یاد کیا کرو، یعنی اس کے ذکر سے اپنی لذتوں میں کمی کیا کرو تاکہ خدا کی طرف رجوع ہوسکے‘‘۔ ایک اور حدیث میں ارشاد فرمایا ’’اگر جانور کو موت کے متعلق اتنی معلومات ہوں جتنی تم لوگوں کو ہیں تو تم کو کوئی موٹا جانور نہ ملے (یعنی موت کے خوف سے دبلے ہوجائیں)
حضرت عائشہؓ نے حضور اکرؐم سے دریافت فرمایا کہ کوئی شخص بغیر شہادت کے شہیدوں میں شامل ہوسکتا ہے؟ آپؐ نے فرمایا جو شخص دن میں بیس مرتبہ موت کو یاد کرے۔ ان سب فضیلتوں کا سبب یہی ہے کہ موت کا کثرت سے یاد کرنا انسان کی دل کی سختی کو کم کرتا ہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتا ہے، آخرت کی تیاری پر آمادہ کرتا ہے۔
آپؐ نے فرمایا ’’اگر تم کو یہ معلوم ہوجائے کہ مرنے کے بعد تم پر کیا کیا گزرے گی تو کبھی رغبت سے نہ کھانا کھاؤ، نہ لذت سے پانی پیو۔‘‘ ایک اور حدیث میں فرمایا ’’موت کو کثرت سے یاد کرو، جو شخص موت کا کثرت سے ذکر کرتا ہے، اس کا دل زندہ ہو جاتا ہے اور موت اس پر آسان ہو جاتی ہے‘‘۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا: ’’حضور! مجھے موت سے محبت نہیں ہے، کیا علاج کروں؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’تمہارے پاس کچھ مال ہے؟‘‘ عرض کیا کہ ہے۔ حضور اکرمؐ نے فرمایا: ’’اس کو آگے چلتا کردو، آدمی کا دل مال میں لگا رہتا ہے، جب اس کو آگے بھیج دیتا ہے تو خود بھی اس کے پاس جانے کے لئے بے قرار ہوتا ہے اور جب پیچھے چھوڑ جاتا ہے تو خود بھی اس کے پاس رہنے کو دل چاہتا ہے۔‘‘
مشکوٰۃ میں حضور اکرمؐ نے فرمایا ’’لوگو! خدا کو یاد کرلو! خدا کو یاد کرلو، عنقریب قیامت کا زلزلہ، پھر صور پھونکنے کا وقت آرہا ہے اور ہر شخص کی موت اپنی ساری سختیوں سمیت آرہا ہے۔‘‘
حضرت عمر بن عبد العزیزؒ کا معمول تھا کہ وہ روزانہ رات کو علماء کا بلاتے جو موت کا، قیامت کا اور آخرت کا ذکر کرتے اور ایسا روتے جیسا کہ سامنے جنازہ رکھا ہو۔ حضرت ابراہیم تیمیؒ فرماتے ہیں دو چیزوں نے مجھ کو دنیا کی ہر لذت سے بے نیاز کردیا۔ ایک موت نے، دوسرے قیامت میں رب کے سامنے کھڑا ہونے کی فکر نے۔ حضرت کعبؓ فرماتے ہیں جو شخص موت کو پہچان لے اس پر دنیا کی ساری مصیبیں آسان ہیں۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ ’’موت کا تذکرہ کثرت سے کیا کرو، دل نرم ہو جائے گا‘‘۔
موت کی سختی نزع کی حالت اور اندیشہ ایسی چیز ہے جو زندگی کے سارے عیش و آرام کو مکدر کرنے کیلئے کافی ہے۔ موت کی فکر اور اسی کی یاد انسان کیلئے ایسا ہی ہے جیسے کوئی سپاہی گرفتاری کا وارنٹ لئے پھر رہا ہو کہ آکر گرفتار کرلے۔ ملک الموت ہر وقت ہر لمحہ انسان کی تلاش میں ہیں، پھر بھی انسان غافل اور بے فکر ہے۔ آپؐ موت کی سختی آسان کرنے کے لئے دعا مانگتے تھے۔ موت کی سختی اور نزع سے نجات اور آسانی کی دعا ہر صحابیؓ نے مانگی۔ حضرت لقمانؒ کا ارشاد اپنے بیٹے سے ہے کہ موت ایسی چیز ہے جس کا حال معلوم نہیں کہ کب آپہنچے۔ اس لئے پہلے سے تیاری کرلو۔ واقعی تعجب کی بات ہے کہ آدمی لذتوں میں مشغول ہو، لہو ولعب کی محفلوں میں شریک ہو اور اس کو یہ معلوم ہو جائے کہ ایک سپاہی اس کی تلاش میں ہے تو اس کی ساری لذت، سارا عیش و آرام مکدر ہو جائے گا۔ بلکہ اسے صرف یہ ہی معلوم ہو جائے کہ سپاہی کے پاس اس کے لئے وارنٹ گرفتاری ہے تب بھی اس کی راتوں کی نیند اڑ جائے گی۔ حالانکہ انسان کو معلوم ہے کہ ملک الموت اس پر مسلط ہے اور موت کی سختیاں اس پر وارد ہونے والی ہیں، پھر بھی اس سے غافل ہے۔
امام غزالیؒ نے احیاء العلوم میں فرماتے ہیں کہ موت کا معاملہ نہایت خطرناک ہے اور لوگ اس سے غافل ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ دل کو سب سے فارغ کر کے موت کے بارے میں اس طرح سوچے کہ گویا وہ سامنے موجود ہے۔ جس کی صورت یہ ہے کہ وہ اپنے عزیز و اقارب اور جانے والے احباب کا حال سوچے کہ کیونکر ان کو چارپائی پر لے جا کر مٹی کے نیچے دبا دیا۔ ان کی صورتوں اور ان کے اعلیٰ منصوبوں کا خیال کرے اور سوچے کہ اب مٹی نے ان کی صورتوں کا کیا حال کردیا ہوگا۔ ان کے بدن کا ہر حصہ الگ ہوگیا ہوگا۔ کس طرح بچوں کو یتیم، بیوی کو بیوہ اور عزیز و اقارب کو روتا چھوڑ کر چلے گئے۔ ان کا سامان، ان کا مال، ان کے کپڑے سب یہیں پڑے رہ گئے۔ یہی حشر میرا ہونے والا ہے، جانے والے بھی کس طرح دنیا کی لذتوں میں مشغول تھے، آج مٹی میں پڑے ہوئے ہیں، آج کوئی بھی پوچھنے والا نہیں ہے۔ دنیا کے دھندوں میں اتنے مصروف تھے کہ آخرت کی کوئی فکر ہی نہ تھی، مگر آج پاؤں الگ پڑا ہے، زبان کو کیڑے چمٹ گئے ہیں، بدن کو کیڑے کھا رہے ہوں گے۔ کیسا کھلکھلا کے ہسنتے تھے، آج دانت گرے پڑے ہیں۔ کیسی کیسی تدبیریں سوچتے تھے، برسوں کیلئے انتظام میں سرگرداں رہتے تھے۔ حالانکہ موت سر پرتھی، مرنے کا دن تو مقرر ہے، مگر انہیں نہیں معلوم تھا اور یہی حال میرا ہے۔ آج میں دنیا میں مشغول ہوں، کل کی خبر نہیں آئے کہ نہ آئے۔‘‘
امام اوزاعیؒ کہتے ہیں کہ ’’مردوں کو قیامت میں اٹھنے تک موت کی تکلیف کا اثر رہتا ہے۔‘‘ حضرت شداد بن اوسؒ کہتے ہیں ’’موت دنیا اور آخرت کی سب تکلیفوں سے زیادہ سخت ہے، وہ دیگ میں پکا دینے سے زیادہ سخت ہے۔ اگر مردے قبر سے اٹھ کر مرنے کی تکلیف بتائیں تو کوئی شخص بھی دنیا میں لذت سے وقت نہیں گزار سکتا۔ میٹھی نیند نہیں سو سکتا۔‘‘ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب حضور اکرمؐ کا عالم نزع تھا تو پانی سے بھرا ہوا پیالہ حضورؐ کے قریب رکھا ہوا تھا۔ حضور اکرمؐ بار بار دست مبارک کو پیالے میں ڈالتے اور منہ پر ملتے تھے اور فرماتے تھے خدایا نزع کی سختی پر میری مدد فرما۔ خدایا! ہم سب کو بھی موت کی سختی سے نجات دے اور قبر کی منزلوں کو آسان کر۔ آمین۔
٭٭٭٭٭
Next Post