محدثین کے حیران کن واقعات

0

زمانہ قریب میں بھی ایسے محدثین گزرے ہیں، جن کو ہزاروں حدیثیں یاد تھیں۔ چنانچہ علامہ محمد انور شاہ کشمیریؒ ہزاروں احادیث کے حافظ تھے۔ شیخ حسین احمد مدنیؒ کو پوری بخاری شریف زبانی یاد تھی اور زمانہ قریب کی ایک عظیم شخصیت حافظ الحدیث مولانا عبد اللہ درخواستیؒ کو اتنی زیادہ حدیثیں یاد تھیں کہ آپ علمائے کرام کے ہاں حافظ الحدیث کے نام سے جانے اور پہچانے جاتے تھے اور آج کل کے پرفتن و پر آشوب اور گئے گزرے دور میں بھی ایسے علمائے کرام موجود ہیں جنہیں سینکڑوں حدیثیں زبانی یاد ہیں، بلکہ بخاری و مسلم کے حافظ بھی موجود ہیں۔
قرآن جس کی آیتوں کی تعداد ہزاروں ہے، کے حفاظ کی تعداد تو صرف بچوں، بچیوں، مردوں اور عورتوں کی ہر صنف میں سے لاکھوں سے متجاوز ہے۔ جن میں بعض ایسے گھرانے بھی موجود ہیں، جن میں گھر کے تمام افراد حفظ قرآن کی دولت سے مالامال ہیں اور ساتھ ساتھ کئی کئی بہن بھائی عالم دین بھی ہیں۔
اسی طرح ایک دور حفاظ قرآن کے علاوہ حفاظ حدیث کا بھی تھا۔ ان دنوں محدثین کرام اسی کو اپنا سارا سرمایہ سمجھتے تھے، جیسا کہ عروہ بن زبیرؒ نے اپنی خالہ محترمہ سیدہ عائشہ صدیقہؓ اور بعض دوسرے صحابہ کرامؓ سے جو احادیث لکھ کر مسودہ کی شکل میں جمع کی تھیں، وہ جنگ حرہ میں ضائع ہوگئیں۔ آپؒ ان کے تلف ہونے پر ساری عمر افسو س کرتے رہے۔
الحاصل ایک طرف صحابہؓ ومحدثین کرامؒ کا نبی کریمؐ کی احادیث کے ساتھ حد درجہ انتہائی عشق و محبت اور دوسری طرف ناقابل تسخیر حافظہ اور تیسری طرف ان دنوں ہر سرکاری وغیر سرکاری سطح پر احادیث یاد کرنے والے حضرات کی عزت و پذیرائی عروج پر تھی، لہٰذا ان حالات میں اتنی زیادہ احادیث کے یاد کرنے کو ناقابل فہم کہنے والا خود اپنی فہم کے نقص پر روئے۔
قوت حافظہ کو بڑھانے کے لئے لوگ ادویات کا سہارا لیتے، ورزشیں کرتے، ایسی غذائیں کھاتے اور تعویذات بھی لیتے ہیں، لیکن ان کا حافظہ پھر بھی کمزور رہتا ہے۔ حافظہ کن لوگوں کا مضبوط ہوتا ہے اور اس کے لئے کسی انسان کو کیا کرنا چاہئے، اس کا ایک حکمت افروز نسخہ حضرت امام شافعیؒ کے استاد گرامی نے صدیوں پہلے بیان کردیا تھا کہ انسان کو حافظہ مضبوط بنانے کے لئے دراصل کیا کام کرنا چاہئے۔
حضرت امام شافعیؒ کے استاد گرامی حضرت وکیعؒ برگزیدہ اور انتہائی متوکل انسان تھے۔ زہد وتقویٰ میں ان کی مثال دی جاتی تھی۔ ان کا حافظہ بلا کا تھا۔ انہوں نے حضرت امام ابو حنیفہؒ سے تعلیم پائی تھی۔ علی بن حزم کا بیان ہے کہ انہوں نے حضرت وکیعؒ کے ہاتھ میں کبھی کوئی کتاب نہیں دیکھی تھی۔ جب بھی ان سے کوئی علمی حوالہ پوچھا جاتا تو وہ اس کا فوراً جواب دے دیتے۔
ایک بار ان سے پوچھا گیا ’’حضرت اس قدر اعلیٰ حافظہ کا نسخہ کیا ہے تاکہ وہ دیگر طلبہ کو بھی دیا جاسکے؟‘‘
حضرت وکیعؒ نے فرمایا ’’اگر تم چاہتے ہو کہ تمہارا حافظہ مضبوط ہو جائے تو گناہ چھوڑ دو۔‘‘
’’وہ تو ٹھیک ہے، حضرت مگر اس کی دوا کیا ہے؟‘‘ اصرار کرکے دریافت کیا گیا۔
جواب دیا ’’میری نظر میں حافظہ کی دوا اس سے کوئی اور بہتر نہیں کہ گناہ نہ کیا جائے۔‘‘
حضرت امام شافعیؒ نے اپنے حافظہ کی کمزوری کی شکایت کی اور اس کا علاج پوچھا تو حضرت وکیعؒ نے وضاحت کرتے ہوئے فرمایا ’’گناہ ترک کردو، علم خدا کا نور ہے اور نور گنہگار کے حصہ میں نہیں آتا۔‘‘ (ختم شد)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More