معارف و مسائل
سابقہ آیات میں اہل جنت کے اور اہل جہنم کے حال کا بیان تھا، جو آخرت میں پیش آئے گا اور دائمی ہوگا اور آخرت کی نعمتوں سے محروم اور عذاب میں گرفتار ہونے کا بڑا سبب انسان کے لئے دنیا کی فانی لذتیں اور ان میں منہمک ہو کر آخرت سے غفلت ہونا ہے، اس لئے ان آیات میں دنیا فانی کا ناقابل اعتماد ہونا بیان کیا گیا ہے۔
پہلے ابتدا عمر سے آخر تک جو کچھ دنیا میں ہوتا ہے اور جس میں دنیا دار منہمک و مشغول اور اس پر خوش رہتے ہیں، اس کا بیان ترتیب کے ساتھ یہ ہے کہ دنیا کی زندگی کا خلاصہ بہ ترتیب چند چیزیں اور چند حالات ہیں، پہلے لعب پھر لہو پھر زینت پھر تفاخر ، پھر مال واولاد کی کثرت پر ناز و فخر۔
لعب وہ کھیل ہے، جس میں فائدہ مطلق پیش نظر نہ ہو، جیسے بہت چھوٹے بچوں کی حرکتیں اور لہو وہ کھیل ہے، جس کا اصل مقصد تو تفریح اور دل بہلانا اور وقت گزاری کا مشغلہ ہوتا ہے، ضمنی طور پر کوئی ورزش یا دوسرا فائدہ بھی اس میں حاصل ہو جاتا ہے، جیسے بڑے بچوں کے کھیل، گیند، شناوری یا نشانہ بازی وغیرہ۔ حدیث میں نشانہ بازی اور تیرنے کی مشق کو اچھا کھیل فرمایا ہے۔ زینت بدن اور لباس وغیرہ کی معروف ہے، ہر انسان اس دور سے گزرتا ہے کہ عمر کا بالکل ابتدائی حصہ تو خالص کھیل یعنی لعب میں گزرتا ہے، اس کے بعد لہو شروع ہوتا ہے، اس کے بعد اس کو اپنے تن بدن اور لباس کی زینت کی فکر ہونے لگتی ہے، اس کے بعد ہم عصروں ہم عمروں سے آگے بڑھنے اور ان پر فخر جتلانے کا داعیہ پیدا ہوتا ہے۔
اور انسان پر جتنے دور اس ترتیب سے آتے ہیں غور کرو تو ہر دور میں وہ اپنے اسی حال پر قانع اور اسی کو سب سے بہتر جانتا ہے، جب ایک دور سے دوسرے کی طرف منتقل ہو جاتا ہے تو سابقہ دور کی کمزوری اور لغویت سامنے آ جاتی ہے، بچے ابتدائی دور میں جن کھیلوں کو اپنا سرمایہ زندگی اور سب سے بڑی دولت جانتے ہیں ، کوئی ان سے چھین لے تو ان کو ایسا ہی صدمہ ہوتا ہے جیسا کہ کسی بڑے آدمی کا مال و اسباب اور کوٹھی بنگلہ چھین لیا جائے، لیکن اس دور سے آگے بڑھنے کے بعد اس کو حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ جن چیزوں کو ہم نے اس وقت مقصود زندگی بنایا ہوا تھا، وہ کچھ نہ تھیں، سب خرافات تھیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Next Post