عاشق صادق کا جذبہ

0

حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے فرزند حضرت عبد الرحمنؓ جنگ بدر سے پہلے حالت کفر پر تھے، بلکہ جنگ بدر میں وہ دشمنوں کے ساتھ شامل تھے، چونکہ وہ مکہ مکرمہ میں ہی مقیم تھے۔ اس لئے لشکر کفار کے ساتھ مسلمانوں سے لڑنے نکل پڑے۔ جب عین جنگ میں حضرت ابو بکر صدیقؓ اپنے فرزند کی زد میں آگئے تو محبت پدری نے جوش مارا اور حضرت عبد الرحمن نے اپنا رخ دوسری سمت کرلیا۔
غزوہ بدر کے بعد سیدنا عبد الرحمنؓ مشرف بہ اسلام ہوئے۔ کافی عرصہ بعد ایک مرتبہ اصحابؓ رسولؐ کی محفل گرم تھی۔ جنگ بدر کا ذکر چھڑا تو حضرت عبد الرحمنؓ نے جو اس وقت مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے، اپنے جلیل القدر والد (حضرت ابوبکر صدیقؓ) سے مندرجہ بالا واقعہ کا ذکر کیا۔
سیدنا ابوبکرؓ نے فرمایا: اگر تم میری زد میں آجاتے تو میں للٰہیت کے مقابلے میں محبت پدری کی کوئی پروا نہ کرتا، کیونکہ مسلمان حق کی اشاعت و تبیلغ کیلئے ہے نہ باطل سے ڈرنے اور تعلقات میں پھنسنے کیلئے۔
حضرت صدیق اکبرؓ کے دو بیٹے عبد الرحمن ؓ اور محمدؓ تھے، جن میں عبد الرحمن ؓ بڑے ہی شجاع اور جری تھے، لیکن جب حضرت ابو بکر صدیقؓ کو بوجہ طویل علالت اپنی زندگی سے نا امیدی ہوگئی، تو انہوں نے اپنے فرزندوں کے نام خلافت منتقل کرنے کے بجائے صائب الرائے مسلمانوں سے مشورہ کرنا مناسب سمجھا اور اپنا خیال عمر فاروقؓ کے متعلق ظاہر کیا۔ چنانچہ عبد الرحمن بن عوفؓ نے کہا:
عمرؓ کو جو کچھ آپ نے سمجھا ہے، وہ اس سے بدر جہا زیادہ ہیں، مگر ان کے مزاج میں گرمی اور غصہ زیادہ ہے یہ بہت بڑا نقص ہے‘‘۔
فرمایا: یہ نقص میری وجہ سے ہے، جب میں نہ رہوں گا تو یہ نقص بھی نہ رہے گا، میں چونکہ نرمی برتتا تھا، اس لئے وہ سختی برتتے تھے، جب خلافت کا بوجھ ان کے سر پڑے گا، وہ خود بخود نرم ہو جائیں گے۔ حضرت عثمان بن عفانؓ نے آپ کی تائید کی۔
حضرت طلحہؓ نے کہا: اے خلیفہ رسولؐ! آپ عمرؓ کے غصہ کو جان بوجھ کر انہیں ہم پر خلیفہ کئے دیتے ہیں، جب لوگ ان کے غصے سے تکلیف اٹھائیں گے تو اس کی جواب دہی قیامت کے دن آپ کے سر ہوگی، اچھی طرح سوچئے۔
فرمایا: تم نے تو مجھے ایسا ڈرایا ہے کہ میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے ہیں۔ سن لو کہ اگر خداوند کریم قیامت کے دن اس باب میں مجھ سے پوچھے گا تو میں یہی جواب دوں گا کہ ’’یا الہٰ العالمین میں نے نیک نیتی کے ساتھ تیرے بندوں پر ایسا خلیفہ مقرر کیا، جو سب سے بہتر تھا‘‘۔
سیدنا مُعَیْقَبؓ صدیق اکبر ؓ کے اخراجات کے وکیل تھے۔ مرض الموت میں انہیں بلایا اور فرمایا: بتائو ہمارا تمہارا حساب کیسے ہے؟ کہا آپ میرے 25 درہم کے قرض دار ہیں، مگر میں نے اپنی خوشی سے یہ قرض معاف کیا۔
فرمایا: میں نہیں چاہتا کہ دنیا سے قرض کا بوجھ لے کر جائوں۔ کہا حضور! میں تو اس زیارت کو آخری دیدار سمجھ رہا ہوں۔ 25 درہم کیلئے مجھ کو محجوب نہ کیجئے۔ کیا میرا اتنا بھی اعتبار نہیں کہ میں نے دل سے ایک خفیف سی رقم چھوڑ دی ہے۔
فرمایا: یہ سچ ہے مگر جس ملک میں، میں جا رہا ہوں وہاں کا توشہ اور زادِ راہ اسی طرح تیار کیا جاتا ہے کہ کسی کا حق لے کر وہاں نہ جانا چاہئے، یہ کہہ کر آپؓ نے عائشہ صدیقہ (اپنی بیٹی) سے 25 درہم منگوائے اور سیدنا مُعَیْقَبؓ کو دے دیئے۔
حضرت عمر فاروقؓ کی ایک بیوی نام جمیلہؓ تھیں۔ عاصم انہی کے بطن سے تھے۔ عاصمؓ ابھی صغیر سن ہی تھے کہ کسی وجہ سے حضرت عمرؓ نے ان کو طلاق دے دی۔ یہ حضرت ابوبکر ؓ کا زمانہ تھا اور حضرت عمر ؓ قباء سے جہاں پہلے رہتے تھے، اٹھ کر مدینہ میں آ گئے تھے۔
ایک دن اتفاق سے قباء کی جانب جا نکلے۔ عاصمؓ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ حضرت عمرؓ نے ان کو پکڑ کر اپنے گھوڑے پر بٹھا لیا اور ساتھ لے جانا چاہا۔ جمیلہؓ آئیں اور مزاحم ہوئیں کہ میرا لڑکا ہے، میں اپنے ساتھ رکھوں گی۔ جھگڑے نے طول کھینچا۔ امیر المومنین حضرت ابوبکر ؓ کے یہاں معاملہ گیا۔ آپؓ نے حضرت عمرؓ کے خلاف فیصلہ کیا اور وہ مجبور ہو کر رہ گئے۔
ایک معمولی عورت کے مقابلے میں حضرت عمرؓ جیسے شیر اسلام کو شکست ہو جائے، اس سے بڑھ کر مساوات اور منصفانہ فیصلوں کی نظیریں کہاں ملیںگی۔ (جاری ہے)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More