کراچی( رپورٹ :عمران خان ) ایف آئی اے نے دبئی غیر قانونی اثاثہ جات کیس میں بھی اہم سیاسی شخصیات کے فرنٹ مینوں و آلہ کاروں کے خلاف گھیرا تنگ کرنا شروع کردیا ہے۔دبئی میں خفیہ جائیدادیں و اثاثے بنانے والے 5000سے زائد پاکستانیوں کے خلاف تحقیقات حتمی مرحلے میں داخل ہو گئی ہیں ۔ایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز نے ایمنسٹی اسکیم میں جائیدادیں ظاہر نہ کرنے والےو جزوی طور پر ظاہر کرنے والے 1895شہریوں میں سے ”پولیٹکلی ایکسپوزڈ پرنسز“ قرار دیئے جانے والے 44بیورو کریٹس و سیاسی شخصیات کیخلاف منی لانڈرنگ قانون کے تحت کارروائی کی منظوری دیدی ہے،44بیوروکریٹس چاروں صوبوں میں اہم سرکاری عہداروں پر تعینات ہیں جو سیاسی شخصیات کے فرنٹ مین کا کردار ادا کرتے رہے ہیں ۔ ان کے ذریعے ملک کی کئی سیاسی شخصیات نے اپنا کمایا ہوا کالا دھن حوالے کے ذریعے دبئی منتقل کیا ، جس سے اربوں مالیت کی جائیدادیں اور اثاثے بنائے۔ اس ضمن میں انہوں نے سرکاری پوزیشن کا غلط استعمال کیا ۔44ب یوروکریٹس میں سے بیشتر حاضر سروس ہیں اورکچھ اب تک ریٹائرڈ ہوچکے ہیں ۔سب سے زیادہ19بیوروکریٹس کا تعلق سندھ سےہے۔پنجاب کے 16افسران بھی فہرست میں شامل ہیں ۔ 9بیوروکریٹس کا تعلق اسلام آباد ،خیبر پختون و بلوچستان سے ہے۔ذرائع کے بقول سب سے زیادہ سرکاری افسران پیپلز پارٹی کی شخصیات کے فرنٹ مین ہیں ۔ دوسرے نمبر پر نواز لیگ کی شخصیات کا فرنٹ مین بننے والے ہیں ۔جائیدادیں خریدنے کیلئے ان افسران نے اپنی سرکاری پوزیشن کا استعمال کیا۔ذرائع کے مطابق دبئی میں غیر قانونی اثاثو ں کے اسکینڈل کی تحقیقات میں ایمنسٹی اسکیم کے گزرنے کے بعد نئی درجہ بندی اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ کے قانون کے تحت وضع کی گئی ہے۔ جسے”پولیٹیکلی ایکسپوڈ پرسنز کہا جاتا ہے ۔ اس درجہ بندی میں سیاسی وابستگی ثابت ہونے والے افراد کا نام شامل کیا جاتا ہے۔اسلام آباد میں موجود ذرائع کے بقول سپریم کورٹ میں دبئی اثاثوں کی تحقیقات میں پیش کی گئی آخری رپورٹ کے بعد ایف آئی اے کودبئی میں کوئی جائیداد نہ ہونے،کم جائیدادیں ظاہر کرنے والوں کے حلف نامے جمع کرانے کی ہدایت کی گئی تھی تاکہ ان کیخلاف کارروائی آگے بڑھائی جاسکے۔مجموعی طور پر فہرستوں کی چھان بین کے دوران پتہ چلا کہ 5000سے زائد پاکستانیوں کی فہرست میں سے40فیصد یعنی 1895افرادایسے ہیں جنہوں نے ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھایا ۔ اس پر ایف آئی اے کے زونل ڈائریکٹرز کو لسٹ میں سے شہریوں اور سرکاری افسران کی الگ فہرستیں بنانے کی ہدایات دی گئیں ۔بعد ازاں ان میں سے ایک ایسی فہرست مرتب کی گئی جن کی سیاسی شخصیات سے وبستگی سامنے آئی اور بیرون ملک اثاثے بنانے میں ایک دوسرے کی مدد کی۔ اس فہرست میں مجموعی طور پر 44نام سامنے آئے جبکہ دوسری فہرست میں 1851نام رہ گئے ۔ دونوں فہرستوں میں شامل افراد کے خلاف ایف آئی اے پنجاب ،سندھ ،خیبر پختون ،بلوچستان اور اسلام آباد زونز کو علیحدہ علیحدہ اینٹی منی لانڈرنگ ایکٹ اور ٹیکس چوری کی دفعات کے تحت انکوائریوں کے احکامات دیے گئے ۔معتبر ذرائع کے مطابق گزشتہ روزایف آئی اے ہیڈ کوارٹرز میں وزارت داخلہ کی اہم شخصیات اور ڈی جی ایف آئی اے کی ملاقات میں بات کا فیصلہ کیا گیا ہے کہ دبئی میں تا حال اپنے غیر قانونی اثاثے ظاہر نہ کرنے والے 1895پاکستانی شہریوں میں سے پہلے منتخب کردہ 44پولیٹکلی ایکسپوڈ پرسن کے خلاف کارروائیاں ہوں گی اور ان کے خلاف باقاعدہ انکوائریاں رجسٹرڈ کرکے مقدمات درج کئے جائیں گے۔ ذرائع کے بقول سیاسی شخصیات کے آلہ کار بننے والے سرکاری افسران اور بیوروکریٹس کے مکمل کوائف اس وقت ایف آئی اے حکام کو ملے جب2ماہ قبل امارات کے حکام نے سرکاری سطح پر پاکستانی حکام کو 4000پاکستانی شہریوں کے ناموں پر موجود اثاثوں کا ریکارڈ حوالے کیا۔اس سے قبل سپریم کورٹ کی ہدایات کی روشنی میں تمام افراد کو نوٹس دیے اور شہریوں سے حلف نامے لئے گئے ،ذرائع کے بقول پہلے 1895افراد کے حلف نامے جمع کئے گئے جن میں سے 540افراد کا تعلق سندھ سے جبکہ 4شہری بلوچستان سے اور 60شہریوں کا تعلق اسلام آباد سے ہے ۔باقی پونے3سو کا تعلق پنجاب و خیبر پختون سے ہے۔بعد ازاں مزید ملنے والی معلومات کی روشنی میں مزید ایک ہزار ناموں کی فہرست ملی ۔فہرست میں شامل شہریوں کو بھی پہلے نوٹس دیے حلف نامے لئے گئے۔ذرائع کے بقول کارروائی کو دو مرحلوں میں مکمل کیا جائے گا۔ پہلے مرحلے میں 44سرکاری افسران کے خلاف منی لانڈرنگ ،ٹیکس چوری اور اینٹی کرپشن کی دفعات کے تحت انکوائریاں رجسٹرڈ کرنے کے بعد ان شہریوں کے خلاف کارروائی شروع کی جائے گی ، جنہوں نے اپنے نام پر ملنے والے جائیداروں اور اثاثوں کے ریکارڈ سے یکسر لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ سابق ڈائریکٹرجنرل کے ڈی اے آغا مقصود عباس سمیت ایس بی سی اے اور کے ایم سی لینڈ ڈیپارنمنٹ ، ریونیوڈیپارنمنٹ کے بعض سابق و حاضر سروس افسران بھی اسی فہرست میں شامل ہیں جنہوں نے ہر سال بیرون ممالک کے درجنوں ایسے دورے کئے جن کےلئے سرکاری پارسپورٹ کے بجائے پرائیوٹ اور بزنس پاسپورٹ اور ویزے استعمال کئے جاتے رہے اور ان دوروں کے ذریعے منی لانڈرنگ کی گئی۔ان شہریوں کی فہرستیں ایف آئی اے افسران کو دے دی گئی ہیں ۔ہر اسسٹنٹ ڈائریکٹر کو 100شہریوں کی فہرست دی گئی ہے جسے3؍3 سب انسپکٹرز کی معاونت حاصل ہے تاکہ ہر سب انسپکٹر 30سے 35افراد کے خلاف تحقیقات آگے بڑھائے۔جن شہریوں نے ایمنسٹی اسکیم کے تحت دبئی میں موجود جائیدادوں اور اثاثوں کو ظاہر کرکے ٹیکس ادا کیا ہے ۔ ان میں سے اکثر نے ایمنسٹی اسکیم میں خفیہ جائیدادیں ظاہر کرنے میں ڈنڈی ماری اور اپنے جزوی اثاثے ظاہر کئے ہیں ۔کئی شہریوں کے ناموں پر دبئی میں 4سے10تک جائیدادوں کا ریکارڈ سامنے آیا ہے ، انہوں نے ایمنسٹی اسکیم میں 2تا3جائیدادوں کو ہی ظاہر کیا ہے ۔ اثاثوں کو خفیہ رکھنے کے سوال پر ان شہریوں کا کہنا ہے کہ وہ باقی جائیدادیں بیچ چکے ہیں یا پھر وہ ان کے بزرگوں کی ملکیت تھیں جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ ایسے شہریوں کیخلاف بھی منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت کارروائی کی اجازت دے دی گئی ہے۔