خدا کی لاٹھی (حصہ اول)

0

ڈاکٹر سلیس سلطانہ چغتائی
کراچی میں عموماً بارشیں بہت کم ہوتی ہیں، مگر جب ہوتی ہیں تو شہری حکومت کا پول فوراً کھل جاتا ہے۔ اس بار ہونے والی بارش نے کراچی کے موسم کو یخ بستہ کر دیا تھا۔ کوئٹہ کی برف باری اور درجہ حرارت کے نقطۂ انجماد سے کئی درجہ گر جانے کی وجہ سے کراچی میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ فلیٹوں میں رہنے والے لوگ یونہی دھوپ سے محروم رہتے ہیں۔ اس خون جما دینے والی سردی نے ان کو لحافوں اور کمبلوں میں چھپے رہنے پر مجبور کر دیا۔ پرانے سویٹر اور کوٹ والے بیس روپے والے سویٹر ڈیڑھ ڈیڑھ سو میں بیچنے لگے۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ یہ سردی صرف تین چار دن سے زیادہ اپنا رنگ نہیں جما سکتی اور ہر منافع خور کی طرح ان کو بھی انہی تین دنوں میں اپنے سال بھر کا منافع جمع کرنا ہے۔ آخر ان کے ساتھ بھی تو مسائل ہیں۔ آئے دن کی ٹارگٹ کلنگ میں سب سے زیادہ یہی لوگ تو نشانہ بنتے ہیں۔ بارش اتنی تیز تھی کہ سڑکوں پر کئی کئی فٹ پانی جمع ہو گیا۔ نشیبی علاقوں میں تو سیلاب کا منظر نظر آنے لگا۔ بادلوں کی سیاہی بتا رہی تھی کہ ابھی کئی دن تک یہ چھاجوں برسے گا۔ میٹروول میں تیسری منزل پر چار فلیٹوں میں رہنے والے آپس میں یوں تو ایک دوسرے سے انتہائی مروت اور رواداری برتتے تھے، مگر مزاجاً سب ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ ان چاروں فلیٹوں کے درمیان بیس فٹ کی ایک راہداری تھی۔ جس میں آمنے سامنے چار دروازے تھے۔ دو دو دروازے ملے ہوئے تھے۔ انہی چار فلیٹوں میں چار خاندان آباد تھے۔ مختلف زبانیں بولنے والے دکھ درد میں ایک دوسرے کے شریک ضرور رہتے تھے، مگر ایک دوسرے سے خائف بھی رہتے تھے۔ کیونکہ مزاجوں میں اختلاف تھا۔ ایک فلیٹ کے مکین حد سے زیادہ صفائی پسند تھے۔ جن کی خاتون دن بھر دو کمروں کے فلیٹ کو دھوتی رہتی تھی۔ گھر میں فرنیچر نام کی کوئی چیز نہ تھی۔ صرف نائلوں کی پھولدار چٹائی تھی اور دو تین کرسیاں۔ یوں بھی ان فلیٹوں کی لمبائی چوڑائی کل 45 گز تھی۔ اس لیے اس پینتالیس گز کے دو کمرے، دو باتھ روم ایک چھوٹے سے کچن پر مشتمل فلیٹ میں بھاری بھرکم فرنیچر کی گنجائش ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ دوسرے فلیٹ کا تالا عموماً پورے ہفتے لگا رہتا۔ صرف اتوار کو فلیٹ کے مکین آتے۔ اس کی صفائی کرتے اور پھر تالا لگا کر چلے جاتے۔ تیسرے فلیٹ میں دو نوجوان میاں بیوی سامعہ اور شافع اپنے تین چھوٹے چھوٹے بچوں کے ساتھ رہتے تھے۔ یہ دونوں میاں خوش مزاج، نرم دل ایک دوسرے کے کام آنے والے تھے۔ ان کی سب سے بڑی کمزوری پرندے، بلیاں اور بچے تھے۔ گھر میں ایک پنجرے میں رنگین طوطے پلے ہوئے تھے۔ چھوٹی سی بالکونی میں مٹی کے تسلے میں باجرہ اور پانی کی کٹوری رکھی رہتی تھی۔ گھر میں گنجائش نہ ہونے کے باوجود ایک سفید اور بھورے بالوں والی ایرانی بلی پلی ہوئی تھی۔ فلیٹ کے باہر راہداری میں دیوار سے لگا کر انہوں نے مختلف پھولوں کے پودے گملوں میں لگا رکھے تھے، جس سے ماحول میں خوشگوار سا احساس ہوتا ہے۔ ایک خالی گملے میں مٹی بھر کر بلی کی ضروری حاجت کے لیے رکھ دیا تھا۔ راہداری کی دیوار کے ساتھ جو گملے رکھے تھے، وہ آپا زیب النساء کے دروازے تک جاتے تھے، جنہیں صرف صفائی کا خبط تھا اور جو بلیوں سے بہت خار کھاتی تھی۔ آپا زیب النساء کے دو بیٹے تھے۔ ایک تقریباً تیئس چوبیس سال کا نوجوان تھا، جو آئی آئی چندریگر میں کسی آفس میں کام کرتا تھا۔ کریم الدین انتہائی خوش مزاج، تعلیم یافتہ اور ہنس مکھ تھا۔ اپنے والدین کے برعکس وہ محلے کے افراد سے خوشگوار تعلقات رکھتا تھا۔ آتے جاتے بچوں کو پیار کرتا، کیونکہ خود اس کے گھر میں صرف چار افراد تھے، اس کا بھائی عمر میں اس سے تقریباً بارہ سال چھوٹا تھا، جو ساتویں کلاس کا طالب علم تھا۔ چوتھے فلیٹ میں ایک بے اولاد جوڑا رہتا تھا، جو رشتوں کو نبھانے کا ڈھنگ جانتا تھا۔ خدا کی رضا سمجھ کر انہوں نے پڑوس کے بچوں سے پیار کرنا شروع کر دیا۔ خدا تعالیٰ نے ایک بار بارآور کیا تھا، مگر ڈاکٹروں کی لاپرواہی اور بے توجہی نے ان کو ماں بننے سے محروم کر دیا اور وہ پھر خالی ہاتھ رہ گئیں۔ اب ان کی توجہ کے مراکز پڑوس میں رہنے والے وہ ننھے منے پیارے سے تین بچے اور ان کے گھر میں پلے ہوئے پرندے اور بلی تھی۔ جس کی دیکھ بھال میں وہ بھی اسی طرح شریک رہتی تھیں، جیسے پڑوسی رہتے۔ بازار جاتیں تو بلیوں کے لیے چھیچڑے لانا نہ بھولتیں۔ پرندوں کے لیے باجرہ اور ان کا مخصوص دانہ ضرور لاتیں۔ خدا تعالیٰ نے ان جانوروں کا رزق بھی اس طریقے پر مہیا کرنے کا انتظام کر رکھا تھا۔ بلی ان دنوں کچھ بھاری ہو گئی تھی۔ سامعہ اور شافع نے سامان سے ڈھونڈ کر ایک پھلوں کی پیٹی سے اس کا گھر راہداری میں بنا کر اس میں بچوں کے پرانے کمبل بچھا دیئے تھے، تاکہ وہ سردی سے محفوظ رہے۔ دروازے پر گتے کا ایک دروازہ لگا کر اسے ہوا اور ٹھنڈک سے محفوظ کرنے کی کوشش کی تھی۔ سامعہ اور شافع کا یہ معمول تھا کہ وہ صبح اٹھتے ہی سب سے پہلے بلی کے گھر کا دروازہ کھولتے، تاکہ وہ نیچے جا کر ضروریات سے فارغ ہو لے۔ بلی بھی اپنے مخصوص مٹی بھرے گملے میں آرام سے فارغ ہو جاتی۔ اس کے بعد اس کو دودھ پیالے میں بھر کر ڈالا جاتا۔ اگر سردی زیادہ ہوتی تو اس میں چائے ڈال دی جاتی، تاکہ وہ سردی سے محفوظ رہے۔ یہ ناز برداریاں بچوں کے اٹھنے سے پہلے کی جاتیں۔ سامعہ کے بچوں کی گاڑی اسکول کے لیے ساڑھے سات بجے آتی۔ اس وقت تک سامعہ اور شافع جانوروں کی ذمہ داریوں سے فارغ ہو چکے ہوتے۔ بچے یونیفارم پہنے تیار سیڑھیوں پر کھڑے رہتے۔ کریم الدین دفتر جانے کے لیے اپنے فلیٹ سے نکلتا تو تینوں بچوں کو پیار کرتا ہوا گزرتا چلا جاتا۔ یہ اس کا روزمرہ کا معمول تھا۔ بلی نے ایک رات تین بچے دیئے۔ بچے انتہائی خوب صورت اور گول مٹول تھے۔ لکڑی کا گھر، کمبل سمیت انتہائی غلیظ ہو چکا تھا۔ سامعہ شافع اور ان کی پڑوسن بہت خوش تھے اور بلی کے ہاں بچوں کی پیدائش پر ایک دوسرے کو مبارک باد دے رہے تھے۔ بچے اسکول سے آئے تو انہوں نے بھی گود میں لے لے کر بلی کے بچوں کو پیار کیا۔ ناراضگی اور کراہیت کا اظہار آپا زیب النسا نے انتہائی زہریلے لہجے میں کیا۔ دبے لفظوں میں انہوں نے ان تینوں نگرانوں کو باتیں سنائیں اور غصے میں آکر بلی کے لیے رکھا جانے والا مٹی سے بھرا گملا بھی جمعدارنی سے پھنکوا دیا۔ لکڑی کے نئے ڈبے میں جو حجم میں بڑا تھا، بلی اور بچوں کے لیے دوبارہ گھر بنا دیا گیا۔ اب نئے خالی گملے کے انتظار میں بلی اور اس کے بچوں نے ان گملوں میں فارغ ہونا شروع کر دیا، جو کریم الدین کے فلیٹ کے دروازے کے قریب تھے۔ سردی نے جب اپنا رنگ جمایا تو بلیوں کی حاجت میں اچانک اضافہ ہو گیا اور ایک دن تو یہ غضب کریم الدین کے دروازے پر ہی ہو گیا۔ بلی کے اس نازیبا عمل سے آپا زیب النسا کا غصہ اور غضب اتنا بڑھا کہ انہوں نے تینوں بچوں کو ایک کپڑے کی بوری میں بند کر کے بیٹے کے حوالے کیا اور خود مطمئن ہو گئیں۔ یہ کام انہوں نے اس وقت کیا جب جانوروں کے چاہنے والے اپنے گھروں میں موجود نہ تھے۔ راہداری میں مکمل سناٹا تھا۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More