خوگر حمد کا تھوڑا سا گلہ

0

سپریم کورٹ نے جعلی بینک اکائونٹس کا کیس نیب کے حوالے کرتے ہوئے اس کی ازسرنو تحقیقات کا حکم جاری کردیا ہے۔ نیب کو ہدایت کی گئی ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات مکمل کرکے دو ماہ میں عدالت کو رپورٹ پیش کی جائے۔ سپریم کورٹ نے بلاول بھٹو اور وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ اور جے آئی ٹی سے نکالنے کا حکم بھی دیا ہے۔ حکم میں کہا گیا ہے کہ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کا وہ حصہ حذف کردیا جائے، جس میں بلاول کا نام ہے۔ فاضل عدالت نے قرار دیا کہ بلاول اور مراد علی شاہ کا نام پوائنٹ اسکورنگ کیلئے ڈالا گیا یا کسی کا دبائو تھا؟ بلاول تو اپنی ماں کا مشن آگے بڑھا رہا ہے۔ کاروبار میں اس کی امی اور پھوپھی کا کردار ہوسکتا ہے۔ اس کا نہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ اومنی گروپ کا سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ ہے یا نہیں۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ بینکوں میں جعلی اکائونٹس آخر فرشتوں نے تو نہیں کھولے ہوں گے؟ کوئی تو ان کے پیچھے ہے۔ انہوں نے جے آئی ٹی کے وکیل فیصل صدیقی سے سوال کرتے ہوئے کہا کہ بلاول بھٹو کو اس معاملے میں کیوں ملوث کیا گیا۔ وہ تو ایک معصوم بچہ ہے، اس نے پاکستان میں آکر ایسا کیا کردیا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے بارے میں فاضل چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ان کی عزت نفس مجروح کی جارہی ہے۔ دیکھ تو لیتے کہ وہ ایک صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ عدالت عظمیٰ جے آئی ٹی رپورٹ کی پابند نہیں۔ جرم بنتا ہے یا نہیں، یہ فیصلہ عدالت کرے گی۔ منصف اور مفتی کے کردار کو واضح کرنے کیلئے حنفی مسلک کی سب سے بڑی شخصیت امام ابو حنیفہؒ جنہیں مخالفین بھی امام اعظم تسلیم کرتے ہیں، ان کا ایک واقعہ روشن مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔ وہ بارش کے بعد پانی اور کیچڑ والی جگہ سے گزر رہے تھے۔ انہوں نے ایک راہگیر کو متنبہ کیا کہ ذرا سنبھل کر چلنا، کہیں پیر نہ پھسل جائے۔ راہگیر نے فوراً جواب دیا حضرت، میرے پھسلنے سے صرف میرا نقصان ہوگا، آپ کو زیادہ سنبھل کر چلنے کی ضرورت ہے۔ آپ پھسل گئے تو آپ کے پیچھے بہت لوگ پھسلیں گے۔ امام ابو حنیفہؒ اس کا اشارہ اور فقہ میں اپنا مقام فوراً بھانپ گئے اور راہگیر کیلئے جذبات تشکر کا اظہار کیا۔ وہ اپنے وقت کے ہی نہیں، آئندہ کئی نسلوں کیلئے بھی حنفی مسلک سے تعلق رکھنے والے مسلمانوں کے امام ہیں، جن کی دنیا میں سب سے زیادہ اکثریت ہے۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار سترہ دسمبر تک ملک کے سب سے بڑے منصف ہیں، ان کے ریمارکس اور فیصلے آئندہ مقدمات میں بطور نظیر پیش کئے جاتے رہیں گے۔ اس لئے ان سے بھی بصد ادب گزارش کی جاسکتی ہے کہ وہ ریٹائرمنٹ سے پہلے اپنے ریمارکس اور فیصلوں میں زیادہ احتیاط سے کام لیں، ورنہ بہت سے لوگوں کے پھسلنے کا اندیشہ پیدا ہوجائے گا۔ اسلامی قانون عدل و انصاف کی رو سے اگر کوئی جج اپنے فیصلے میں کوئی نادانستہ غلطی کر بیٹھے تو بارہ الٰہی میں اس کا مواخذہ نہیں ہوگا۔ کیونکہ ججوں کو اگر غلطیوں کا خوف لاحق رہے تو وہ صحیح فیصلہ کرنے سے بھی ہچکچائیں گے۔
میاں ثاقب نثار کا بطور چیف جسٹس آف پاکستان کارکردگی کا ٹریک ریکارڈ نہایت شاندار مثالی اور قابل تقلید رہا ہے، جس کی ’’امت‘‘ نے ہمیشہ تائید و تحسین کی ہے۔ انصاف کے اتنے بڑے منصب پر فائز چیف جسٹس میاں ثاقب نثار اس حقیقت کو تسلیم کرنے میں یقینا کوئی تامل نہیں کریں گے کہ بشری تقاضوں کے تحت ان سے بھی نادانستہ غلطیاں سرزد ہو سکتی ہیں، جنہیں اخلاص اور دیانتداری کے ساتھ ان کے سامنے پیش کیا جائے تو وہ اسے اپنی شان کے خلاف یا توہین عدالت قرار نہیں دیں گے۔ یہ اہم ترین بات اکثر دوہرائی جاتی ہے کہ جج نہیں، ان کے فیصلے بولتے ہیں۔ اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ ججوں کی جانب سے فیصلے ان کے ریمارکس سے زیادہ قابل قبول ہوتے ہیں۔ فیصلے آئین و قانون کے مطابق اور ثبوت و شواہد کی روشنی میں کئے جاتے ہیں، جس میں بعض اوقات بدیہی حقائق بھی پس پشت چلے جاتے ہیں۔ جج صاحبان انسان اور اسی معاشرے کے افراد ہیں اور وہ اپنے علم، تجربے اور مشاہدے کی بنیاد پر اپنے ذاتی خیالات رکھتے ہیں، جن کا اظہار وہ ریمارکس کی صورت میں کرتے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کے ریمارکس بھی اہمیت اختیارکرتے گئے۔ ان کے ریمارکس اور فیصلوں میں کبھی واضح فرق نظر آیا تو نیم خواندہ و ناخواندہ افراد کے علاوہ بہت سے پڑھے لکھے لوگ بھی حیرت زدہ رہ گئے۔ البتہ آئین و قانون سے وابستگی رکھنے والوں کی نظروں میں اس فرق کی گنجائش باقی رہتی ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری، ان کی بہن فریال تالپور اور دیگر افراد کے خلاف جعلی بینک اکائونٹس کے معاملات ایک مدت سے عوام و خواص، ذرائع ابلاغ، قانونی حلقوں، نیب اور عدالتوں میں زیر بحث ہیں۔ سپریم کورٹ کی نگرانی میں نیب اور جے آئی ٹی ان معاملات پر تحقیق و تفتیش کرتی رہیں۔ لیکن اب سپریم کورٹ نے اس کیس کو دوبارہ نیب کے سپرد کرکے از سرنو تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ اگر اس ادارے کی تحقیقات پر فاضل عدالت عظمیٰ کو اعتماد نہیں تو کیس کو دوبارہ اسی کے سپرد کرنا چہ معنی دارد؟ بلاول بھٹو اور مراد علی شاہ کا نام غیر ضروری طور پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں شامل کیا گیا ہے تو اسے نکلوانا غلط نہیں، لیکن بلاول زرداری کو معصوم اور اپنی ماں کا مشن آگے بڑھانے والا قرار دینا ناقابل فہم ہے۔ یہ سراسر ایک سیاسی بیان لگتا ہے۔ بلاول زرداری کی معصومیت تو ان کے ساری عمر بیرون ملک رہنے اور وہاں کی تعلیمی کے علاوہ دیگر ’’سرگرمیوں‘‘ میں مصروفیت کے احوال سے واقف ہر شخص کو ہے۔ جہاں تک بینظیر بھٹو یا ان کے والد ذو الفقار علی بھٹو کے مشن کا معاملہ ہے تو اس کا عدالت عظمیٰ سے نہیں، سیاست سے تعلق ہے۔ ساری قوم گواہ ہے کہ یہ خاندان مال و مناصب کی دوڑ میں شرکت کے سوا پاکستان اور عوام کی کوئی خدمت نہیں کر سکا۔ ان کے بے پناہ اثاثے اور حصول اقتدار کی سرتوڑ کوششیں سب کے سامنے ہیں، جس کی خاطر انہوں نے اپنی جانیں بھی قربان کردیں۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کی عزت نفس مجروح کرنے کے ریمارکس سے اہل وطن کے جذبات مجروح ہوئے، کیونکہ وہ وزیر اعلیٰ بننے سے پہلے صوبائی وزیر خزانہ کی حیثیت سے بھی اپنی اور پارٹی کے قائدین کی خدمات انجام دیتے رہے۔ پیپلز پارٹی نے سندھ میں زبردست وسائل کو صوبے، ملک اور قوم کی خدمت کیلئے استعمال کیا ہوتا تو آج یہاں کا نقشہ ہی بدلا ہوا ہوتا۔ ہزاروں کی تعداد میں مرنے والے تھر کے بچے اور بڑے پیپلزپارٹی کی بدترین کارکردگی کا ثبوت ہے، جو ہر سال دنیا کو نظر آتا ہے۔ باقی رہا اومنی گروپ کا سیاستدانوں سے گٹھ جوڑ کا معاملہ تو اس کا جواب فاضل چیف جسٹس کے ان میں ریمارکس میں موجود ہے کہ بینکوں کے جعلی اکائونٹس آخر فرشتوں نے تو نہیں کھولے ہوں گے؟ کوئی تو ان کے پیچھے ہوگا۔ یہی فرشتے اومنی گروپ کے سرپرست اور مربی ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More