قریش کے وفد نے ایک دفعہ پھر کوشش کی کہ بادشاہ کا دل مسلمانوں کی طرف سے پھیر دیں۔ دوسرے دن دربار میں باریاب ہو کر عرض کی ’’اے بادشاہ یہ لوگ آپ کے نبی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق بھی بہت براعقیدہ رکھتے ہیں، کیا آپ اس عقیدہ کے لوگوں کو پناہ دیں گے۔‘‘
نجاشی نے مسلمانوں کو دوبارہ دربار میں طلب کیا اور پوچھا ’’تمہارا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نسبت کیا عقیدہ ہے؟‘‘ حضرت جعفرؓ نے جواب دیا ’’اے بادشاہ ہم عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کا نبی اور اس کی روح مانتے ہیں۔‘‘
نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھا کر کہا ’’بخداجو کچھ تم نے عیسیٰ علیہ السلام ابن مریم علیہا السلام کے متعلق کہا وہ اس تنکے کے برابر بھی اس سے زیادہ نہیں ہیں۔‘‘
غرض قریش کی سفارت بے نیل مرام واپس لوٹ گئی۔ اس کے بعد تمام مسلمان بشمول حضرت اسماءؓ عنہا بنت عمیس نہایت امن سے حبش میں رہنے لگے۔
حضرت جعفرؓ بن ابی طالب اور اسمائؓ بنت عمیس رسول کریمؐ کی ہجرت مدینہ کے بعد چھ برس حبش میں رہے۔ جب 7 ہجری میں خیبر فتح ہوا، وہ حبش سے مدینہ واپس آئے۔ خیبر کی فتح سے مسلمان پہلے ہی خوش تھے۔ اپنے ان بھائیوں کے آنے سے انہیں دہری خوشی ہوئی۔ رسول کریمؐ نے حضرت جعفرؓ کو گلے لگایا، ان کی پیشانی چومی اور فرمایا:
’’میں نہیں جانتا کہ مجھ کو جعفرؓ کے آنے سے زیادہ خوشی ہوئی یا خیبر کی فتح سے۔‘‘
حبشہ سے آکر حضرت اسمائؓ بنت عمیس حضرت حفصہؓ کو ملنے ان کے گھر گئیں۔ وہاں حضرت عمر فاروقؓ بھی آگئے۔ پوچھا یہ کون ہیں؟ حضرت حفصہؓ نے جواب دیا: ’’اسماءؓ زوجہ جعفر ؓبن ابی طالب۔‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’ہاں وہ حبش والی، وہ سمندر والی؟‘‘
حضرت اسماءؓ نے جواب دیا ’’ہاں وہی‘‘
حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’ہم کو تم پر فضیلت ہے، اس لئے کہ ہم مہاجر ہیں۔‘‘
حضرت اسمائؓ کو یہ فقرہ اچھا نہ لگا بولیں: ’’ہر گز نہیں۔ تم رسول کریمؐ کے ساتھ تھے۔ وہ جاہلوں کو تعلیم دیتے تھے اور بھوکوں کو کھانا کھلاتے تھے۔ لیکن ہماری حالت اور تھی، ہم نہایت دور دراز مقام میں اپنے عزیزو اقربا سے بچھڑ کر صرف خدا اور خدا کے رسولؐ کی خوشنودی کی خاطر پڑے رہے اور بڑی بڑی تکلیفیں اٹھائیں۔‘‘
اتنے میں رسول کریمؐ بھی تشریف لے آئے۔ حضرت اسمائؓ نے سارا قصہ بیان کیا۔ رسول اقدسؐ نے فرمایا ’’انہوں نے ایک ہجرت کی اور تم نے دو ہجرتیں کیں، اس لئے تم کو زیادہ فضیلت ہے۔‘‘
حضور اقدسؐ کے اس ارشاد پر حضرت اسماءؓ کو بے حد مسرت ہوئی۔ حبشہ کے مہاجرین ان کے پاس آتے تھے اور اس واقعہ کی تفصیل سن کر خوش ہوتے تھے۔
حضرت اسمائؓ اور ان کے شوہر نامدار کو مدینہ آئے ہوئے ایک سال ہی گزرا تھا کہ ان کی آزمائش کا وقت آگیا۔ شام کے ایک قصبہ موتہ کے رئیس شرجیل بن عمرو غسانی نے رسول کریمؐ کے سفیر حضرت حارث بن عمیرؓ کو شہید کرا دیا۔
یہ ایک نہایت ذلیل حرکت تھی اور ایک بے گناہ سفیر کا قتل برداشت کرنا دوسرے سفیروں کی جانیں خطرے میں ڈالنے کے مترادف تھا۔ چنانچہ جمادی الاول 8 ہجری میں رسول کریمؐ نے تین ہزار مجاہدین کا ایک لشکر موتہ کی طرف روانہ کیا۔ فوج کا علم اپنے منہ بولے بیٹے حضرت زید بن حارثہؓ کو عطا کر کے فرمایا:
’’اگر زید شہید ہوں تو جعفرؓ علم سنبھالیں، اگر جعفر ؓبھی شہید ہوں تو ابن رواحہؓ ان کی جگہ لیں۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post