پوت کے پاؤں پالنے میں

0

2018ء کے عام انتخابات کو آٹھ دن گزر چکے ہیں۔ ان کے شفاف یا غیر شفاف ہونے پر بحث کے علاوہ کئی حلقوں میں دوبارہ گنتی ہونے کی وجہ سے کامیاب اور ناکام امیدواروں کے نام و نتائج جاری ہونے کا سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لیتا۔ کہیں جیتے ہوئے امیدوار ہارتے نظر آئے ہیں تو کہیں شکست خوردہ امیدوار فاتح بن کر ابھر رہے ہیں۔ الیکشن کمیشن کے ارکان اور تحریک انصاف کے رہنما اپنے بیرونی حامیوں کی مدد سے دنیا کو یہ باور کرانے میں لگے ہوئے ہیں کہ حالیہ انتخابات گزشتہ دو (2008ء اور 2013ء کے) انتخابات کے مقابلے میں کہیں زیادہ پر امن، آزادانہ، منصفانہ اور صاف و شفاف منعقد ہوئے ہیں، جبکہ بعض چھوٹی پارٹیوں اور بکاؤ مال کی حیثیت رکھنے والے کچھ آزاد امیدواروں کے سوا باقی تمام جماعتیں انتخابات میں شدید دھاندلی کی شکایات کرتے ہوئے انہیں پاکستانی تاریخ کے بدترین انتخابات قرار دے رہی ہیں۔ جن انتخابات کے نتائج آنے اور کئی حلقوں میں تاحال دوبارہ گنتی کا سلسلہ جاری ہو اور نہ جانے کب تک جاری رہے، ان کے نتائج کو کیونکر حتمی قرار دیا جاسکتا ہے۔ تاہم تحریک انصاف کی قومی اسمبلی اور خیبر پختونخوا میں زیادہ نشستوں سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ پنجاب میں جوڑ توڑ اور سودے بازی کا سلسلہ جاری ہے، جس کے نتیجے میں ممکن ہے کہ وہاں بھی تحریک انصاف مخلوط صوبائی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جائے۔ دوسری جانب مسلم لیگ پنجاب اسمبلی میں زیادہ نشستیں حاصل کرنے کا دعویٰ کرکے آخر دم تک صوبائی حکومت کے قیام کے لئے پرعزم نظر آتی ہے۔ قوم، جماعتوں، امیدواروں اور عوام کو بری طرح منتشر کردینے والے انتخابات کے ’’کامیاب‘‘ انعقاد پر الیکشن کمیشن نے پہلے تو اپنی تعریف کے خود ہی ڈھول پیٹنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن اب خبر آئی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا نے عام انتخابات کے نتائج میں (غیر معمولی) تاخیر کا نوٹس لے لیا ہے۔ عذر یہ پیش کیا گیا تھا کہ پچیس جولائی کے عام انتخابات میں الیکشن کمیشن کا رزلٹ ٹرانسمیشن سسٹم ناکام یا ناکارہ ہونے کے باعث نتائج میں تاخیر ہوئی۔ چنانچہ پہلا سرکاری نتیجہ اگلے روز صبح چار بجے جاری کیا گیا۔ ادھر جمعرات کو آل پارٹیز کانفرنس کے بعد اخباری نمائندوں اور ٹی وی چینلز کو یہ بتایا گیا کہ نادرا کے مطابق آر ٹی ایس میں کوئی خرابی نہیں تھی، بلکہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے کیلئے اسے خراب قرار دیا گیا یا جان بوجھ کر ناکارہ بنایا گیا۔ چیف الیکشن کمشنر نے صوبائی الیکشن کمشنروں سمیت تمام ریٹرننگ افسروں سے وضاحت طلب کرلی ہے کہ نتائج کے اعلان میں تاخیر کیوں ہوئی، جبکہ رات دو بجے تک تیار کرکے ان کا اعلان ہونا تھا۔ حکومتی و سرکاری اداروں میں بات بات پر نوٹس لینا معمول بن چکا ہے، حالانکہ عام طور پر کسی نوٹس کا کوئی فوری اور مثبت نتیجہ سامنے نہیں آتا۔ اس قسم کے اکثر نوٹس سردخانے کی نذر ہو جاتے ہیں، پھر کوئی پوچھتا ہے نہ کسی کو یاد رہتا ہے۔ اس دوران دوسرے نوٹس لئے جاتے رہتے ہیں۔
یہ تو ہوا عام انتخابات کے غیر مکمل نتائج کا ایک اجمالی جائزہ، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ 2018ء کا انتخابی عمل اب تک نامکمل ہے۔ اسی بنا پر وفاق اور صوبوں میں حکومتوں کی تشکیل کے مرحلے بھی باقی ہیں۔ زیادہ نشستوں اور عام تاثر کے مطابق تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان اکثریتی پارٹی کے قائد کی حیثیت سے ملک کے آئندہ وزیر اعظم بن چکے ہیں، اس لئے وہ اندرون و بیرون ملک سے مبارکباد کے پیغام وصول کرتے ہوئے حکومت سازی کے لئے مشوروں میں بھی مصروف ہیں۔ ملک کی نوکر شاہی نے حکمرانوں کی چوپلوسی کے بارے میں اپنی دیرینہ روایات پر عمل کرتے ہوئے عمران خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں قائد ایوان کا ووٹ لینے اور وزیراعظم کا حلف اٹھانے سے پہلے ہی انہیں زبردست پروٹوکول دینا شروع کردیا ہے۔ عمران خان کی رہائش گاہ بنی گالہ کی سیکورٹی سخت کردی گئی ہے، جس کی وجہ سے عام لوگوں کا اردگرد کے علاقوں سے گزرنا بھی محال ہو گیا ہے۔ عمران خان مدینہ کی طرز پر فلاحی ریاست کے قیام کا دعویٰ کر رہے ہیں اور انہوں نے وزیراعظم ہاؤس میں قیام پذیر ہونے کے بجائے عام وزیروں کے ساتھ رہنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ اس کے باوجود وہ اپنی ذاتی رہائش بنی گالہ کی تزئین و آرائش، راستے روکنے، روشنی کے انتظامات کرنے اور عام شہریوں سے سخت پوچھ گچھ پر کوئی اعتراض نہیں کرتے۔ قول اور فعل کے ایسے مزید تضادات سامنے آئیں گے، جن کی بنا پر سابقہ حکمران عوام میں غیر مقبول ہوئے اور عمران خان کو وزارت عظمیٰ کے منصب تک پہنچنے کا موقع ملا۔ ڈی آئی جی وقار احمد چوہان سمیت کئی پولیس افسران عمران خان کی رہائش گاہ کا دورہ کرچکے ہیں۔ آس پاس کی پہاڑیوں کا جائزہ لے کر وہاں اضافی نفری تعینات کردی گئی ہے۔ ان کے گھر تک جانے والے راستے پر تین چوکیاں قائم کردی گئی ہیں، جو آنے جانے والوں کی پوری طرح نگرانی اور پوچھ گچھ کرتی ہیں۔ پچاس سے زائد سرچ لائٹس لگائی ہیں، جبکہ مرکزی دروازے سے دوسرے دروازے تک سبز پردہ بھی تان دیا گیا ہے تاکہ کوئی بھی اندر کے ماحول کو نہ دیکھ سکے۔ دوسری جانب لاہور ہائی کورٹ نے عمران خان کو وی آئی پی پروٹوکول دینے کے خلاف دائر ایک درخواست پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کو ہدایات حاصل کرکے پیش ہونے کا حکم دیا ہے، جبکہ وفاقی حکومت کو آٹھ اگست کیلئے نوٹس جاری کر دیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ لائرز فاؤنڈیشن فار جسٹس کی جانب سے اے کے ڈوگر نے عدالت عالیہ میں ایک آئینی درخواست دائر کر رکھی ہے، جس میں مؤقف اختیار کیا گیا ہے کہ عمران خان کو وزیر اعظم بننے سے پہلے وی آئی پی پروٹوکول دینا غیر قانونی ہے۔ درخواست میں الیکشن کمیشن، وفاقی حکومت اور پنجاب حکومت کو فریق بنایا گیا ہے۔ درخواست گزار کا کہنا ہے کہ عمران خان وزیر اعظم بننے سے پہلے ہی سرکاری مراعات حاصل کر رہے ہیں۔ وہ عوام کے ٹیکس کی رقم اپنی ذات اور مفاد کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔ ملک و قوم کی خدمت کے بلند بانگ دعوؤں، سادہ طرز زندگی اختیار کرنے کی باتوں اور پاکستان کو مدینہ منورہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کے اعلانات کی روشنی میں عمران خان کا وزارت عظمیٰ کے منصب سنبھالنے سے پہلے ہی یہ حال ہے تو وہ آئندہ کیا قیامت ڈھائیں گے؟ اس تناظر میں وطن عزیز کے محب وطن اور عوام دوست دانشور مبصرین یہ کہہ کر مہر بہ لب ہو جاتے ہیں کہ پوت کے پاؤں پالنے میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More