ایک مرتبہ ہندوستان میں بارشوں کا سلسلہ بند ہوگیا۔ ایک عالم دین بزرگ نے نماز استسقاء کا اعلان کر دیا۔
میاں اصغر حسینؒ صاحب کو غالباً بذریعہ کشف یہ بات معلوم ہو چکی تھی کہ بارش نہیں ہوگی، پھر بھی مولانا مفتی محمد شفیعؒ سے کہنے لگے:
’’میاں بارش تو ہو گی نہیں، البتہ نماز کا ثواب حاصل کرنے کے لئے چلنا ضروری ہے۔‘‘
چنانچہ میاں صاحب نماز ادا کرنے چلے گئے … بارش کو نہ ہونا تھا، نہ ہوئی … ان بزرگ نے دوسرے دن بھی بارش کے لئے نماز کا اعلان کرا دیا … اس روز بھی میاں اصغر حسین صاحبؒ نے فرمایا:
’’میاں! بارش تو ہو گی نہیں، البتہ نماز کا ثواب حاصل کرنے کے لئے چلنا ضروری ہے۔‘‘ چنانچہ پھر نماز کے لئے چلے گئے، بارش اس روز بھی نہ ہوئی… تیسرے روز ان بزرگ نے پھر بارش کا اعلان کرا دیا … میاں صاحب تیسرے روز بھی نماز پڑھنے کے لئے پہنچ گئے۔ اس روز آپ نے خود ان بزرگ سے کہا:
’’اگر آپ اجازت دیں تو آج نماز میں پڑھا دوں۔‘‘
بزرگ نے اجازت دے دی۔ دوسری طرف تمام لوگ حیران تھے، کیونکہ میاں اصغر حسین صاحبؒ تو پنج وقت نماز لوگوں کو نہیں پڑھاتے تھے، اگرچہ لوگ ان سے بار بار کہتے تھے اور آج بارش کی نماز پڑھانے کے لئے کہہ رہے تھے۔ خیر ان بزرگ نے اجازت دے دی، اس طرح تیسرے دن میاں اصغر حسین شاہ صاحبؒ نے نماز پڑھائی۔ اب میاں صاحب کے عقیدت مندوں کے دلوں میں بار بار یہ خیال آ رہا تھا کہ آج تو بارش ضرور ہو گی، شاید میاں صاحب نے کشف کے ذریعے معلوم کر کے خود نماز پڑھانے کا اعلان کیا ہے… لیکن ہوا کیا … بارش اس روز بھی نہیں ہوئی، دھوپ اسی شدت سے چمکتی رہی، بادلوں کا دور دور تک پتا نہ تھا، مجبور ہو کر سارا مجمع غمگین سا واپس لوٹا۔
مفتی محمد شفیع صاحبؒ نے میاں صاحبؒ سے پوچھا:
’’آپ تو کبھی پانچ وقت کی نماز نہیں پڑھاتے، تو آج یہ آپ کو کیا سوجھی؟‘‘
میاں صاحب نے فرمایا: ’’میرا مقصد اس کے سوا کچھ نہیں تھا کہ جو عالم دین دو روز سے نماز پڑھا رہے ہیں، لوگوں کو ان پر بدگمانی نہ ہو، میں بھی اس میں شریک ہو جائوں، کیونکہ مجھے اندازہ تھا کہ بارش اس وقت ہونا مقدر میں نہیں، تو کسی عالم یا مذہبی شخصیت کا اس میں کیا قصور… اب اگر بدنامی ہوتی ہے تو کسی ایک عالم کی نہ ہو۔‘‘(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post