مولانا جلال الدین رومیؒ نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خدا تعالیٰ سے سوال کیا: ’’پروردگار! تو لوگوں کو پیدا کرتا ہے اور پھر مار دیتا ہے، اس میں کیا حکمت ہے؟‘‘
حق تعالیٰ نے فرمایا: ’’چونکہ تیرا سوال انکار اور غفلت پر مبنی نہیں ہے، اس لیے میں درگزر کرتا ہوں، ورنہ سزا دیتا۔‘‘ یعنی تو اس لیے معلوم کر رہا ہے تاکہ عوام کو ہماری حکمتوں سے آگاہ کر دے، ورنہ تجھے مخلوق کے پیدا کرنے میں ہماری حکمتیں معلوم ہیں۔ سوال علم کے منافی نہیں ہے۔ کسی چیز کے بارے میں سوال آدھا علم ہوتا ہے۔ اگرچہ تو تو اس سے واقف ہے، لیکن تو چاہتا ہے کہ عوام بھی آگاہ ہو جائیں۔ کسی چیز کا علم ہو جانے کے بعد ہی اس کے بارے میں سوال جواب ہو سکتا ہے۔ علم ہی گمراہی اور ہدایت کا سبب بنتا ہے۔جیسا کہ نمی اور تری ہی پھل میں شیرینی کے علاوہ تلخی بھی پیدا کرتی ہے۔ ملاقات اور تعارف سے دوستی اور دشمنی پیدا ہوتی ہے اور غذا ہی سے بیماری اور صحت دونوں پیدا ہوتی ہیں۔
موسیٰ! تو ناواقفوں کو حکمتوں سے واقف کرنا چاہتا ہے، اس لیے تجاہلِ عارفانہ برت رہا ہے۔ ہم بھی اس کے علم سے انجان بن کر اس کو جواب دیتے ہیں۔
حق تعالیٰ نے جواب میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو حکم دیا کہ: ’’کھیتی بو دو۔‘‘
موسیٰ علیہ السلام نے حکم کی تعمیل کی۔ جب کھیتی تیار ہو گئی تو موسیٰ علیہ السلام کو اسے کاٹنے کا حکم دیا۔ آپؑ نے ایسا ہی کیا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام سے پوچھا: ’’تو نے خود کھیتی بوئی اور پھر اسے کیوں کاٹ ڈالا؟‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا کہ: ’’کھیتی کے پکنے پر اس میں دانہ اور بھوسا تھا اور دونوں کو ملا جلا دینا مناسب نہ تھا۔ حکمت کا تقاضہ یہی تھا کہ دونوں کو الگ الگ کر دیا جائے۔‘‘
حق تعالیٰ نے پوچھا کہ: ’’یہ عقل تم نے کہاں سے حاصل کی؟‘‘
حضرت موسیٰ علیہ السّلام نے کہا کہ: ’’یہ دانش اور عقل آپ کی عطا کردہ ہے۔‘‘
باری تعالیٰ نے فرمایا: ’’پھر یہ دانش مجھ میں کیوں نہ ہو گی۔ دیکھو انسانوں کی روحیں دو قسم کی ہیں: ایک پاک، ایک ناپاک، سب انسانی جسم ایک رتبے کے نہیں ہیں۔ کسی جسم میں موتی جیسی روح ہے اور کسی میں کنچ کی پوتھ کی طرح کی۔ ان روحوں کو بھی اسی طرح ایک دوسرے سے علیحدہ کر دینا مناسب ہے، جس طرح گیہوں کو بھوسے سے تاکہ نیک روحیں جنت کو چلی جائیں اور بری دوزخ کو۔ پہلی حکمت تو مارنے کی تھی اور پیدا کرنے کی حکمت یہ ہے کہ ہماری صفات کا اظہار ہو جائے۔‘‘
حدیثِ قدسی ہے کہ:
’’میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا۔ میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں، لہٰذا میں نے مخلوق کو پیدا فرمایا۔‘‘
مخلوقات مظہرِ صفاتِ خداوندی ہیں۔ انسان کے جسم میں جو موتی ہے، اس کو ضائع نہیں کرنا چاہیے، اس کی
حفاظت کرنی چاہیے۔ (کتاب: انوار العلوم صفحہ 576، 577، مصنف: حضرت مولانا جلال الدین رومیؒ)
جگر پارہ پارہ ہوگیا:
ایک مرتبہ حضرت سفیان ثوریؒ کوفہ میں بیمار ہو گئے، انہوں نے ایک حکیم سے اپنا پیشاب ٹیسٹ کروایا، طبیب نے پیشاب دیکھنے کے بعد کہا کہ یہ پیشاب کس کا ہے؟ لے جانے والے نے طبیب سے کہا کہ اس سوال کے بجائے تم پیشاب کو چیک کرو، اس نے کہا کہ یہ ایسے شخص کا پیشاب ہے کہ خوف الٰہی اور غم کی وجہ سے اس کا جگر اور بطن خاکستر ہو چکا ہے۔
حضرت علی بن حمزہؒ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں حضرت سفیان ثوریؒ کے پیشاب کے ٹیسٹ کے سلسلے میں ایک ایرانی طبیب کے پاس گیا۔ اس نے پیشاب دیکھ کر کہا کہ یہ کسی صحیح انسان کا پیشاب نہیں ہے، میں نے کہا کہ خدا کی قسم یہ افضل الناس شخص کا پیشاب ہے۔ طبیب نے کہا کہ میں تمہارے ساتھ چل کر براہ راست اس شخص کو دیکھنا چاہتا ہوں، میں نے اس کی یہ بات حضرت سفیانؒ سے ذکر کی تو انہوں نے فرمایا بہتر ہے، چنانچہ اس طبیب نے حضرت سفیانؒ کے گھر آ کر انہیں چیک کیا، ان کے پیٹ، پیشانی پر ہاتھ پھیرا، اس کے بعد وہ چلا گیا، میں نے اس سے سوال کیا کہ انہیں کون سا مرض لاحق ہے؟ طبیب نے کہا کہ غم کی وجہ سے ان کا جگر جل چکا ہے۔
حضرت سفیان ثوریؒ کے بھائی نے خط کے ذریعے انہیں اپنی بصارت زائل ہونے کی شکایت کی، حضرت ثوریؒ نے جواب میں لکھا کہ اے برادرم موت کو یاد کرتے رہو، اس کے بعد تمہارا شکوا ختم ہو جائے گا۔
(باقی صفحہ 4بقیہ نمبر1)
Prev Post