احمد خلیل جازم
حضرت سِلوانامؑ کے مزار پر اللہ کیسے حاجات پوری فرماتے ہیں، اس حوالے سے مختلف لوگوں کی آرا لی گئیں تو ہر کسی نے یہی کہا کہ یہاں سے کسی کو اللہ تعالیٰ خالی ہاتھ نہیں بھجواتے۔ آصف جو یہاں مزار کا خادم ہے، اس کی بیوی سے بھی یہی سوال کیا گیا کہ آپ کو کوئی ایسی عورت ملی، جس نے کوئی ایسی منت مانی ہو جو پوری ہوگئی ہو۔ تو اس نے کہا… ’’ایسی عورتیں تو بہت ہیں، لیکن میں آپ کو پہلے اپنی بات کیوں نہ بتائوں۔ ہم دو بہنیں اس گھر میں بیاہ کر آئی ہوئی ہیں۔ میں اور میری بڑی بہن۔ بڑی بہن کی تین بیٹیاں ہوئیں، لیکن بیٹا نہیں ہوا۔ میرا بھی بیٹا نہ ہوا اور دو بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ جس طرح بیٹا نہ ہونے پر گھر کی بڑی بوڑھیاں کوسنے دیتی ہیں، ان کا سامنا ہمیں بھی کرنا پڑا۔ پھر ایسا ہوا کہ اسی وجہ سے ہم دونوں کو میکے بھجوا دیا گیا۔ کافی عرصہ ہم میکے میں رہیں۔ بعد ازاں خاندان کے بڑے بزرگوں نے کوشش کی اور صلح ہوگئی۔ چنانچہ ہم دونوں بہنیں واپس سسرال آگئیں۔ لیکن کوسنوں کا سلسلہ وہیں سے دوبارہ شروع ہوگیا۔ آخر ایک روز میں نے تنگ آکر مزار کا دروازہ کھولا اور بابا جی کے قدموں کے پاس کھڑے ہوکر کہا کہ میرے لیے اللہ سے سفارش کریں کہ مجھے اولاد نرینہ ہو۔ میرا سارا خاندان پشت ہاپشت سے آپ کی خدمت پر مامور ہے، لیکن میری گود میں اولاد نرینہ نہیں۔ اس روز میں نے بڑے دکھی دل کے ساتھ حضرت بابا جی سے شکوہ کیا کہ آپ سچے رب سے سفارش فرمائیں، میری داد رسی کریں۔ اب اس وقت ہی حاضری دوں گی جب اللہ میری گود میں بیٹا دے گا۔ آپ یقین کریں، اگلے دونوں برس میرے ہاں دو بیٹے ہوئے۔ اس طرح سسرال والوںکے وہ طعنے جو میں سنتی اور سوچتی تھی کہ کب ختم ہوں گے، اللہ نے کرم کیا اور وہ ختم ہوگئے۔ یہاں سے کیا ملتا ہے، اس کی زندہ مثال آپ کے سامنے موجود ہے۔ باقی جو جائز خواہش رکھ کر یہاں آتا ہے، اسے بہت کچھ مل جاتا ہے۔ منت کے لیے میٹھی روٹی پکائی جاتی ہے۔ جب منت پوری ہوجائے تو میٹھی روٹی لاکر یہاں بانٹ دی جاتی ہے۔ یہاں سالانہ عرس نہیں ہے، بلکہ ہاڑ کے مہینے میں ایک بڑا نعتیہ جلسہ منعقد کیا جاتا ہے، جس میں دور دور سے لوگ شریک ہوتے ہیں۔ یہاں باقاعدہ لنگر کا انتظام نہیں ہے۔ پہلے یہ ہوتا تھا کہ لوگوں کے گھروں میں ڈھور ڈنگر ہوتے تھے۔ جب کسی کے ہاں کوئی جانور پہلا بچہ دیتا تو وہ مزار کے خادموں کو لاکر دیتے۔ وہ اسے پالتے اور ہاڑ کی پہلی تاریخوں کو جب جلسہ ہوتا تو جتنے جانور موجود ہوتے، انہیں ذبح کر کے یہاں لنگر کا بندوبست کیا جاتا تھا۔ اب ہر جمعرات کو یہاں لنگر کا انتظام ہوتا ہے‘‘۔ شاہ زین کا کہنا ہے ’’حضرت بابا جی کے بارے میں اکثر بزرگوں نے کہا ہے کہ آپ اللہ کے نبی ہیں۔ آپ کو نہ صرف وحی ملتی، بلکہ تبلیغ کی بھی اجازت تھی۔ اس مزار پر دعا سے اللہ کسے نوازتا ہے، لوگوں کوکیا کچھ ملتا ہے، یہ تو وہاں ہر کوئی بیان کردے گا، کوئی کہے گا میں نے ویزہ کے لیے اپلائی کیا، مجھے ویزہ مل گیا۔ کوئی بیٹے کے لیے دعا کرتا ہے، تو کوئی اچھی فصل ہونے کے لیے دعا کرتا ہے۔ لیکن یہاں سے لوگ کتب ابدال بن کر گئے ہیں۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں سے لوگوں کو روحانی فیض حاصل ہوتا ہے۔ میرے علم میں ایسے لوگ بھی ہیں، جو گائوں کے باہر کھڑے ہوکر صاحب مزار سے اجازت لے کر گائوں میں داخل ہوتے اور پھر مزار پر آکر سلام کرتے ہیں۔ یہ اس لیے نہیں بتانا چاہتا کہ لوگ مزارات پر شرکیہ امور انجام دینے سے باز رہیں۔ صاحبِ مزار ایسی باتیں پسند نہیں فرماتے کہ یہاںکوئی شرکیہ عمل کیا جائے‘‘۔ حالیہ مزار کے حوالے سے کیے گئے سوال پر گائوں کے لوگوں کا کہنا تھا کہ ’’مزار کی تعمیر نو آج سے45 برس قبل ایک شخص نے برطانیہ سے آکر کرائی تھی، لیکن اس تعمیر نو میں پورے گائوں نے حصہ ڈالا تھا‘‘۔ گائوں کے ایک بزرگ کا کہنا تھا ’’مزار کی تعمیر نو’رحمت موٹیا طار والا‘ نے کرائی تھی۔ یہ پانچ بھائی تھے، جو سب کے سب قیام پاکستان سے قبل برطانیہ چلے گئے تھے۔ ان کی وہاں گاڑیوں کی فیکٹریاں تھیں۔ مانچسٹر میں فورڈ گاڑیوں کے ساتھ ان کی پارٹنر شپ تھی یا اس کے کچھ حصے ان کی فیکٹری میں بنتے تھے۔ بہرحال بہت پیسے والے لوگ تھے۔ ان میں سے ایک بھائی رحمت خان کو خواب میں حضرت سلوانامؑ کی زیارت ہوئی اور اسے خواب میں حکم دیا گیا کہ میرے مزار کی تعمیر نو کرائو۔ چنانچہ وہ برطانیہ سے واپس آگیا۔ گائوں کے کچھ لوگوں کو اکٹھا کرکے ساری صورتحال سے آگاہ کیا۔ یہ وہ وقت تھا جب گائوں میں ایک ہی پختہ گھر تھا اور وہ انہی لوگوںکا تھا۔ چنانچہ ایک بڑی رقم اس وقت مزار کے لیے رحمت نے ادا کی۔ باقی گائوں کے لوگوں نے دی۔ رحمت خود ہی ساری رقم دے سکتا تھا، لیکن اسے اس کی اجازت نہ ملی۔ چنانچہ اس وقت چار لاکھ کے قریب رقم سے مزار کی تعمیر نو ہوئی۔ کیونکہ پہلے مزار کی چھت نہیں تھی، اس لیے اب باقاعدہ اس پر چھت اور گنبد ڈال دیا گیا تھا۔ البتہ قبر اور پلنگ کی تعمیر نو نہیں کی گئی، وہ اسی ترکھان کا تعمیر کردہ ہی ہے۔ وہ پلنگ بہت مضبوطی سے تعمیر کیا گیا تھا۔ آپ چادر اٹھا کر دیکھیں تو دنگ رہ جائیں گے کہ اس کے پائے کس قدر مضبوط ہیں‘‘۔ لیکن چونکہ بہتر گز لمبی چادر ڈالی گئی تھی، اس لیے اسے اٹھانا بہت مشکل تھا، چنانچہ پلنگ کے پائے دیکھنے کی حسرت ہی رہی۔ ایک شخص کا کہنا تھا کہ ’’حالیہ مزار کی بیرونی چار دیواری احاطے کی تعمیر نو، چھت و دیگر کمرے سب رحمت نے بنوائے تھے۔ اس کے بعد رحمت کے دل میں خدا جانے کیا سمایا کہ اس نے موجودہ خادموں کو یہاں سے بھگاکر خود ہی متولی بننے کی کوشش شروع کردی۔ لیکن اسے کسی نے ایک رات گردن سے پکڑ کر باہر نکال دیا۔ اس کے بعد دوبارہ اس نے یہ کوشش نہ کی اور حالیہ خادم اور اس کا خاندان مزار کی دیکھ بھال پر دوبارہ مامور ہو گیا۔ کیونکہ صاحبِ مزار ان کے علاوہ کسی کو مزار کی صفائی ستھرائی کی اجازت نہیں دیتے‘‘۔ کیا مزار کے احاطے میں جو قبر ہے، جس پر گنبد بھی بنا ہوا ہے، وہی رحمت کی قبر ہے۔ تو اس بارے میں کہا گیا ’’نہیں، یہ سائیں رحمت اور ہے۔ یہ گائوں کا زمیندار تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ وہ یہاں دفن ہو۔ چنانچہ اسے صاحب مزار کے قدموں میں ان کی اجازت سے ہی جگہ ملی، کیونکہ اس کی صاحب مزار سے عقیدت بہت زیادہ تھی اور اکثر وقت اس کا مزار پر ہی گزرتا تھا‘‘۔ قبرستان کے بارے میں شاہ زین کا کہنا تھا ’’جس وقت یہاں جنگ ہوئی اور صاحب مزار کی شہادت ہوئی تو انہیں اسی جگہ دفن کردیا گیا، جہاں آپ کی شہادت ہوئی۔ یہ جگہ خاصی اونچائی پر تھی۔ اس کے بعد دیگر لوگوں کو دفنایا گیا۔ اب جو حالیہ قبرستان ہے، اس کی چھٹی یا ساتویں بار بھرائی ہو رہی ہے، جب جاکر یہ صاحب مزار کے کے قریب جا پہنچا ہے۔ خدا خبر حالیہ قبروں کے نیچے کتنی قبریں مزید موجود ہیں۔ آج سے پچاس برس قبل جب ایک شخص کے دادا کی قبر کھودی جارہی تھی تو نیچے سے اور قبر نکل آئی تھی۔ گزشتہ پچاس برسوں میں میرے سامنے دو بار اس قبرستان کی بھرائی کی جاچکی ہے۔ پہلے کب اور کتنی بار ہوئی، یہ اللہ جانتا ہے‘‘۔
حضرت سِلوانامؑ کے مزار پر بعض لوگوں سے یہ سوال کیا گیا کہ آپ ان بزرگوں کے مزار پر آتے ہیں، ان سے کیا گزارشات کرتے ہیں۔ اس پر اکثر لوگوں کا یہی کہنا تھا کہ ’’ہم ان کے توسط سے پروردگار سے مانگتے ہیں۔ صاحبِ مزار اللہ کے برگزیدہ انبیا میں سے ہیں، ان کے سامنے مراد پیش کرنا دراصل اللہ سے مانگنا ہے، جو ان کے توسط سے مانگا جاتا ہے۔ آپ جب اللہ کے نیک بندوں کے مزارات پر جاتے ہیں اور ان کے درجات کی بلندی کے لیے دعا کر کے اپنے حق میں دعا کرتے ہیں تو رب العزت ان دعائوں کو رد نہیں فرماتے۔ پھر صاحب قبور کوئی عام لوگ نہیں ہوتے۔ ایک خلقت کو پروردگار ان کی بارگاہ میںلے جارہے ہیں تو کوئی وجہ تو ہے جس کی بنیاد پر لوگ وہاں جاتے ہیں اور جاکر اللہ سے مرادیں مانگتے ہیں۔ اصل بات اللہ سے مانگنا ہے۔ چونکہ ہم عام لوگ ہیں اور سلیقہ نہیں رکھتے کہ رب سے کیسے مانگا جائے، اس لیے بیچ میں اللہ کے نیک بندوں کو لایا جاتا ہے۔ اس میں شرک کا کوئی پہلو نہیں ہے۔ شرک تو جب ہو کہ ہم یہاںآکر سجدے کریں یا ماتھے ٹیکیں۔ جب آپ یہاں آکر صرف دعا کرتے ہیں تو پھر کوئی ایسی وجہ نہیں ہے کہ کسی قسم کی تشکیک باقی رہے۔ یہاں آنے والے دل میںکھوٹ رکھتے ہیں تو انہیں موقع پر ہی دکھائی دے جاتا ہے کہ کھوٹ سے معاملہ حل ہونے والا نہیں ہے‘‘۔ جس کسی سے پوچھا گیا، اس نے یہی بتایا کہ اللہ کے نیک بندوں کے درجات کی بلندی کے لیے پہلے دعا کی جاتی ہے اور پھر اللہ کے سامنے ان کا واسطہ ڈالا جاتا ہے، جب جاکر دعا رد نہیں ہوتی‘‘۔ کھوٹ کا معاملہ بھی عجب ہے۔ بعض اوقات آپ کے ساتھ ایسا معاملہ ہوتا ہے جس سے پروردگار بتا دیتے ہیں کہ من کو صاف رکھنا ہی عبادت ہے اور اسی سے ہر قسم کی جائز حاجت پوری ہوتی ہے۔ باقی ان قبور میں کون سی ہستیاں ہیں، اس بارے میں یقین سے اس لیے کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ کہیں بارگاہ ایزدی میں خطاکاری کے مرتکب نہ ہوں۔ ہم صرف تحقیق سے حقیقت تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں اور ہماری تحقیق اللہ تبارک و تعالیٰ کی مرہنون منت ہے۔ اس کی توفیق سے ہی سب کچھ لکھ پاتے ہیں۔ اس یقین کے ساتھ لکھا جاتا ہے کہ اللہ پاک ہمیں اور پڑھنے والوں کو ہر قسم کے شرک سے بچائے۔ بے شک علم کا منبع خدا کی ذات ہے۔ صاحبِ مزار نبی ہیں، شہید ہیں یا غازی۔ یہ پروردگار ہی کو علم ہے۔ واللہ اعلم بالصواب۔
٭٭٭٭٭