سرکاری افسران کے انسانی اسمگلنگ میں ملوث ہونے کا انکشاف

0

عمران خان
ایف آئی اے اور پی آئی اے کے بعض افسران بھی انسانی اسمگلنگ میں ملوث رہے۔ اس کا انکشاف اس وقت ہوا جب افغان شہریوں کو جعلی پاکستانی دستاویزات پر یورپی ممالک بھجوانے کی تحقیقات شروع کی گئیں۔ ایف آئی اے اور پی آئی اے کے افسران نے انسانی اسمگلنگ کیلئے باقاعدہ نیٹ ورک قائم کر رکھا تھا۔ ایف آئی اے نے پی آئی اے اور اپنے ہی ادارے کے سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد انعام غنی سمیت 36 افسران اور اہلکاروں کے اثاثوں کا سراغ لگانے کیلئے ملک بھر کے 34 بینکوں سے ان کے کائونٹس، بینک بیلنس کے علاوہ خفیہ لاکرز اور کریڈٹ کارڈز وغیرہ کی تفصیلات حاصل کرلی ہیں۔ انسانی اسمگلرز سے رابطوں کے ثبوت بھی مل گئے ہیں۔
واضح رہے کہ 2014ء میں اسلام آباد کے بینظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ سے برطانیہ جانے والے 20 افغان باشندوں کو برطانوی حکام نے ہیتھرو ایئرپورٹ پر حراست میں لیا تھا، جو پی آئی اے کی فلائٹ کے ذریعے جعلی پاکستانی دستاویزات پر برطانیہ پہنچنے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ یہ معاملہ سامنے آنے پر برطانوی ہائی کمیشن کی تحریری درخواست پر ایف آئی اے اسلام آباد اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل میں مقدمہ الزام نمبر 238/2014 درج کرکے تحقیقات شروع کی گئی تھیں۔ اس وقت ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد انعام غنی تھے، جنہوں نے ایف آئی اے کے تفتیشی افسر امام بخش کو مقدمے کی تحقیقات سونپی تھیں۔ تاہم 2018ء میں ایف آئی اے میں اعلیٰ پیمانے پر ہونے والی تبدیلیوں کے بعد اس معاملے میں اس وقت اہم تبدیلی رونما ہوئی جب موجودہ ڈی جی ایف آئی اے اور ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ کیپٹن (ر) شعیب کی جانب سے اس معاملے پر دو علیحدہ انکوائریاں 06/2018 اور 41/2018 اینٹی ہیومن ٹریفکنگ سرکل شروع کرائی گئیں۔ یہ انکوائریاں 2014ء میں درج ہونے والے مقدمہ کی تحقیقات میں سامنے آنے والی معلومات پر رجسٹرڈ کی گئیں، جن میں معلوم ہوا کہ انسانی اسمگلنگ میں کوئی اور نہیں، بلکہ خود ایف آئی اے کے اپنے ہی افسران اور اہلکار ملوث ہیں۔ دوسری جانب وزارت داخلہ کو یہ خطوط ارسال ہونے کے بعد سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد انعام غنی جو اس وقت انٹیلی جنس بیورو میں ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل کے عہدے پر ہیں، نے گزشتہ دنوں ہی اسلام آباد ہائی کورٹ میں ڈائریکٹر ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ کیپٹن ریٹائرڈ شعیب اور ڈی جی ایف آئی اے بشیر میمن سمیت مختلف افسران کے خلاف پٹیشن دائر کردی۔ اس میں انعام غنی نے موقف اپنایا کہ انہیں ڈائریکٹر سائبر کرائم ونگ ذاتی عناد کی وجہ سے نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کے علم میں لائے بغیر ان کے اثاثوں کا ریکارڈ حاصل کر کے انہیں اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کو ہراساں کیا جا رہا ہے۔ انہیں صفائی کا موقع نہیں دیا جا رہا، جبکہ ان کے کیس میں عدالت پہلی ہی یہ فیصلہ دے چکی ہے کہ ان کی انکوائری سابق ایڈیشنل ڈی جی واجد ضیا سے کرائی جائے۔ تاہم ان کے بجائے یہ انکوائری کیپٹن ریٹائرڈ شعیب کر رہے ہیں، جو عدالت کے فیصلے کی خلاف ورزی ہے۔
’’امت‘‘ کو اس کیس کے حوالے سے بعض اہم دستاویزات ملی ہیں، جن میں نہ صرف ان 36 افسران اور اہلکاروں کے نام اور کوائف موجود ہیں، بلکہ سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد انعام غنی پر بھی سخت الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ دستاویزات میں شامل لیٹر نمبر DP/2/HQ/ADMIN-111/2018/13 یکم جنوری 2019ء کو ایف آئی اے ہیڈ کوارٹر اسلام آباد ایڈمن سے وفاقی وزارت داخلہ کے سیکریٹریٹ کو لکھا گیا۔ اس لیٹر میں کہا گیا کہ 2014ء میں بے نظیر بھٹو ایئرپورٹ راولپنڈی سے غیر قانونی طریقے سے افغان شہریوں کو برطانیہ بھیجا گیا۔ اس کام میں ڈائریکٹر ایف آئی اے انعام غنی ملوث پائے گئے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد نے جان بوجھ کر انسانی اسمگلنگ کیخلاف کارروائی نہیں کی۔ امیگریشن اسٹاف اور پی آئی اے حکام بھی اس دھندے میں ملوث تھے۔ وزارت داخلہ کو بھیجی گئی رپورٹ میں بتایا گیا کہ برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے 2014ء میں ملنے والی شکایت پر انسانی اسمگلنگ سے متعلق تحقیقات کی گئیں۔ رپورٹ میں ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر انعام غنی پر انکوائری سے جان چھڑانے کا بھی الزام لگایا گیا، کہ ایف آئی اے کے اسلام آباد زون کے ڈائریکٹر ہونے کی حیثیت سے انہوں نے انسانی اسمگلنگ کے لیے فلائٹ کی چیکنگ وغیرہ جیسی رکاوٹوں کو ہٹایا اور ان کی مدد کے بغیر ایف آئی اے کے امیگریشن اسٹاف سمیت پی آئی اے کی جانب سے افغان شہریوں کا جعلی پاسپورٹ پر اسمگل کیا جانا ممکن نہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے باعث یہ معاملہ قومی سلامتی کا بھی ہے۔ اس معاملے میں انکوائری کو مزید آگے نہیں بڑھایا گیا اور ملزمان کو اسی ایئرپورٹ پر کام جاری رکھنے دیا گیا۔ جبکہ تحقیقات کا رخ یہ کہہ کر موڑ دیا گیا کہ افغان شہری ایف آئی اے کے امیگریشن کاؤنٹر سے گزرے ہی نہیں تھے۔
’’امت‘‘ کو موصول ہونے والی دستاویزات کے مطابق جن ایف آئی اے اور پی آئی اے کے افسران اور اہلکاروں کے اثاثوں کا ریکارڈ حاصل کرنے کیلئے بینکوں کو خطوط لکھے گئے، ان میں راجہ عامر اقبال، راجہ ضمیر العقاب، راجہ وقار رشید، خالد کمال، پیر کمال، محمد ضمیر خان، سید فرحان حیدر، نوید آباد، سید آصف حسین شاہ، سید فدا حسین شاہ، محمد اعجاز خان، ابو ذر خالد، انعام غنی، شیرین انعام، سحر انعام، چوہدری گلفام ناصر، رانا عابد، نسرین عابد، افضل نیازی، فاطمہ گل، طارق محمود، عبدالرحمن، راجہ واجد، ارشد مقبول، صدف نورین، محبوب، سمیع اللہ خان، محمد ناہید، فیصل عزیز، عامر گلزار، محمد الیاس عامر، ظہیرالدین، محمد اعجاز خان، سید محسن اور جواد علی شامل ہیں۔ دستاویزات کے مطابق ایف آئی اے کی جانب سے ایف آئی اے اور پی آئی اے کے انسانی اسمگلنگ میں ملوث افسران اور اہلکاروں کے خلاف انکوائری نمبر2018 /41 میں مقدمہ درج کرنے کی سفارشات بھی دے دی گئی ہیں۔
انہی دستاویزات کے مطابق جس وقت یہ معاملہ سامنے آیا، سابق ڈائریکٹر اسلام آباد انعام غنی نے معاملے کی شفاف انکوائری کے بجائے معاملے کو دبانے کی کوشش کی۔ انہوں نے برطانوی ہائی کمیشن کی جانب سے وفاقی وزرات داخلہ کیلئے ارسال کردہ ایک لیٹر کو بھی فائل میں سے نکال کر غائب کر دیا تھا، تاکہ معاملے کو دبایا جاسکے۔ انہوں نے دو وارداتوں میں سے ایک کو مکمل طور پر چھپانے کیلئے صرف ایک ہی مقدمہ درج کیا، کیونکہ ایک واردات میں 10 افغان باشندوں کو بھجوایا گیا، جبکہ دوسری واردات میں علیحدہ سے 20 افغان باشندوں کو بھجوایا گیا۔ تاہم مقدمہ 20 کا ہی درج کیا گیا۔ یف آئی اے اور پی آئی اے کے ملازمین کی ملی بھگت سے ہی جعلی پاسپورٹس کی بنیاد پر افغان شہریوں کو اسلام آباد سے لندن کے علاوہ اسپین بھجوایا گیا۔ اس حوالے سے برطانوی ہائی کمیشن نے افغان شہریوں کی جعلی پاسپورٹس پر پاکستان اسمگلنگ کا انکشاف کیا تھا۔ دستاویزات میں بتایا گیا کہ برطانوی ہائی کمیشن نے چار خطوط لکھ کر اس حوالے سے ایف آئی اے کو آگاہ کیا۔ انسانی اسمگلنگ کرنے والے گروہ نے 22 ہزار ڈالر فی کس وصول کئے۔ تحقیقاتی کمیٹی نے چھان بین کے بعد 16 افراد کے خلاف کارروائی کی سفارش کی تھی۔ دستاویزات میں ایف آئی اے کے 6 اہلکاروں کیخلاف اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے پر مقدمہ درج کرنے کا بھی کہا گیا۔ اس تحقیقات کے دوران پی آئی اے ملازمین کی جعلی ڈگریوں کا بھی انکشاف ہوا، جس پر متعلقہ ملازمین کو کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ سابق ڈائریکٹر ایف آئی اے اسلام آباد انعام غنی سمیت مبشر ترمزئی، گلفام ناصر اور عدنان کے خلاف بھی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا۔ تحقیقات کے مطابق ایف آئی اے افسران کے علاوہ پی آئی اے ٹاسک فورس کے لوگ بھی ملوث رہے۔ اسمگلر اور ایف آئی اے کے ملزمان کے درمیان ٹرانزیکشن لنکس سامنے آئے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More