اسلامی نظام کیلئے قائم ہونے والے ملک پاکستان کی اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہوگی ہم ستر برسوں میں اس نظام کو نافذ تو کیا کرتے، اب تک یہی غور و خوض ہورہا ہے کہ آخر اسلامی نظام ہے کیا؟ پہلی مسلم لیگی حکومت سے آخری تحریک انصاف کی حکومت تک، دعوے سب نے کئے لیکن اسلام کا نظام سیاست و معیشت اور معاشرت قائم کرنے کے حوالے سے کسی نے ذرہ برابر بھی کام نہیں کیا۔ چنانچہ پاکستان میں ہر طرف مغربی قوانین اور تہذیب کا راج ہے۔ وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہر دور میں برسراقتدار آنے والے لوگ اپنے پانچ چھ فٹ کے وجود کو اسلام کے سانچے میں نہ ڈھال سکے۔ ان کے گھروں، دفتروں، کھیتوں اور کھلیانوں میں جگہ جگہ مغربی اقدار نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں تو وہ باہر کی دنیا کو اس لعنت سے کیسے پاک کرسکتے ہیں۔ قیام پاکستان سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح سے کسی نے طنزیہ انداز میں یہ سوال کیا تھا کہ وہ نئے وطن میں قانون سازی کیلئے کیا کریں گے تو انہوں نے ایک لمحہ توقف کئے بغیر یہ کہہ کر سوال کنندہ کا منہ بند کردیا کہ ہمیں کسی نئے نظام یا قانون سازی کی ضرورت نہیں۔ ہمارے پاس چودہ سو سال پہلے کا نافذ کردہ نظام شریعت (بصورت قرآن کریم) اپنی اصل حالت میں موجود ہے جو زندگی کے ہر شعبہ میں ہماری رہنمائی کیلئے کافی ہے۔ نبی اکرمؐ کے مبارک ہاتھوں سے مدینہ منورہ میں قائم ہونے والا اسلامی نظام، اپنی تمام تر جزئیات کے ساتھ تاریخ کے اوراق میں زندہ و تابندہ ہے۔ البتہ اس کے بنیادی اصولوں کی روشنی میں بدلے ہوئے وقت اور حالات کے ساتھ تبدیلیوں کی قیامت تک گنجائش رکھی گئی ہے۔ انسانی حقوق کا جو عالمی منشور آخری نبی حضرت محمدؐ نے میدان عرفان میں پیش کیا تھا، اس کے بیشتر نکات اقوام متحدہ کے چارٹر میں بھی موجود ہیں، لیکن قیام پاکستان کو ستر سال گزرنے کے بعد کوئی عام شہری نہیں، بلکہ وفاقی شرعی عدالت یہ پوچھ رہی ہے کہ وفاق اسلامی نظام معیشت کے بارے میں بتائے کہ یہ کیا ہے؟ ملک میں سودی نظام کے خلاف دائر مقدمات کی سماعت کرنے والے وفاقی شرعی عدالت کے پانچ رکنی بنچ نے وفاقی حکومت سے سوال کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ وفاقی شرعی عدالت اپنی اور حکمرانوں کی اسلامی معلومات اور مسلم معاشرے کے حوالے سے ان کی اہلیت کا فرق واضح کرے۔ چیف جسٹس شیخ نجم الحسن کی سربراہی میں قائم وفاقی شرعی عدالت بنچ کے فاضل جج صاحبان اگر خود نہیں جانتے یا جان بوجھ کر اسلام کے نظام معیشت پراپنی رائے نہیں دینا چاہتے تو گستاخی معاف، انہیں اس بنچ سے علیحدہ ہوجانا چاہئے۔ تحریک انصاف کی موجودہ حکومت، اس کے کل پرزوں اور ماتحت اداروں کے بارے میں شرعی عدالت کیوں اس سوچ کی حامل ہے کہ وہ عدالت کے عالم و فاضل ججوں سے زیادہ اسلامی معلومات کی حامل ہے اور وہ بتاسکتی ہے کہ اسلام کا نظام معیشت کیا ہے؟
وفاقی شرعی عدالت نے وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت سے شاید اس لئے یہ سوال کیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کو مدینہ جیسی فلاحی ریاست بنانے کا دعویٰ کیا تھا۔ کسی فلاحی ریاست میں یقینا کلیدی کردار معیشت کو حاصل ہوتا ہے۔ اس کی سمت درست ہو تو قوم خوشحال ہوتی ہے اور یہی فلاحی معاشرے کا ثبوت ہوتا ہے۔ پاکستان میں حکمرانوں نے اسلامی معیشت کو سمجھا، نہ اختیار کیا تو ان سے کسی خیر کی توقع کس بنیاد پر کی جائے۔ سود اور شراب جیسی دو بڑی لعنتیں کسی بھی پرامن، مہذب اور خوشحال معاشرے کو تباہ کرنے میں بنیادی کردار ادا کرتی ہیں۔ پاکستان میں یہ دونوں لعنتیں اپنی پوری آن، بان اور شان سے مسلط ہیں۔ کیونکہ مقتدر متمول طبقات خود ان میں سرتاپا لتھڑے ہوئے ہیں۔ وہی ستر سال سے قوم کو دھوکا دیتے چلے آرہے ہیں کہ ہم پاکستان کو حقیقی معنی میں اسلام کا قلعہ بناکر دکھائیں گے۔ مدینہ جیسی فلاحی ریاست کا دعویٰ کرنے والی تحریک انصاف کی حکومت میں مغربی تہذیب کا ایک سے ایک دلدادہ موجود ہے۔ ان کی زندگی میں پانچ ماہ کے دوران کوئی تبدیلی آئی نہ اسلام کی کوئی جھلک دکھائی دی تو ان کے کسی وعدے اور دعوے پر کیونکر اعتبار کیا جاسکتا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت کے فاضل چیف جسٹس شیخ نجم الحسن نے سماعت کے دوران کہا کہ عدالت عظمیٰ کے حکم پر 1988ء میں (یعنی پاکستان بننے کے اکتالیس سال بعد) شریعت آرڈیننس نافذ کیا گیا تھا، جو پندرہ اکتوبر 1989ء کو ختم کردیا گیا۔ ہمیں دنیا بھر کے علما، فضلا اور دانشوروں نے بتایا ہے کہ پاکستان کے موجودہ نظام اور اسلامی نظام میں بڑا فرق ہے۔ اس امر میں کوئی شک نہیں کہ دور نبویؐ کے ربا اور آج کے سود میں (جسے منافع بھی کہا جانے لگا ہے) بہت فرق ہے، لیکن اس فرق کو بتانا علمائے دین اور وفاقی شرعی عدالت کے جج صاحبان کی ذمے داری ہے۔ نہ کہ کوئی دوسرا انہیں یہ فرق بتائے۔ عدالت میں سودی نظام کے خاتمے سے متعلق مقدمات کی سماعت کے بعد امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہم عوام کی جانب سے سودی نظام کے خاتمے کی قانونی و عدالتی جنگ لڑ رہے ہیں۔ آئین پاکستان آرٹیکل 138 سود پر پابندی عائد کرتا ہے، لہٰذا اس کا خاتمہ آئینی تقاضا اور عوامی مطالبہ ہے۔ اللہ و رسولؐ کی خوشنودی حاصل کرکے ہی ہم پاکستان کو فلاحی معاشرہ بناسکتے ہیں۔ ملک کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کا وعدہ کرنے والی حکومت اپنا وعدہ نبھائے۔ موجودہ حکومت کے وژن 2023ء میں سود کا خاتمہ شامل نہیں ہے، جو نہایت افسوسناک ہے۔ موجودہ کرپٹ سودی نظام کی وجہ سے صرف پینتیس فیصد لوگ بینکوں میں اپنی رقوم رکھتے ہیں۔ اگر پورا معاشی نظام اسلامی ہو جائے تو سو فیصد لوگ بینکوں میں کھاتے کھول لیں گے، جو قومی معیشت کے استحکام کا بڑا ذریعہ ثابت ہوگا۔ سراج الحق نے اس امر پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ شراب کو حرام قرار دینے سے متعلق اقلیتی رکن رمیش کمار نے قومی اسمبلی میں جو بل پیش کیا، اس کی پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور تحریک انصاف نے مخالفت کی۔ بہت سے معاملات میں ان تینوں جماعتوں کا ایک ہی مؤقف یا نقطہ نظر ہے۔ گویا یہ سب ایک ہی کلچر کے لوگ ہیں، جو اسلامی نہیں، مغربی کلچر ہے۔٭
Prev Post
Next Post