سیدنا ابن مسعودؓ اسلام قبول کرنے والے اوّلین اصحابِؓ رسولؐ میں سے ہیں۔ امام بغویؒ نے آپؓ کا یہ قول نقل کیا ہے کہ ’’میں اسلام لانے والوں میں چھٹا شخص ہوں‘‘ آپؓ کے قبول اسلام کا واقعہ نہایت دلچسپ ہے۔ آپؓ عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرا رہے تھے کہ ادھر سے حضور اکرمؐ حضرت ابو بکر صدیقؓ کے ہمراہ گزرے۔ حضورؐ نے دودھ طلب فرمایا۔ حضرت ابن مسعودؓ نے عرض کیا: مجھے امانت دار بنایا گیا ہے کہ بکریاں چرائوں اور ان کی حفاظت کروں، دودھ پلانے کا مجاز نہیں ہوں۔
حضور اقدسؐ نے بکریوں میں سے ایک ایسی بکری تلاش کی جو ابھی دودھ دینے کے قابل نہیں ہوئی تھی۔ آپؐ نے اس کے تھن پر ہاتھ پھیرا اور پھر اسے دوہا۔ یوں حضورؐ اور حضرت صدیق اکبرؓ نے دودھ نوش جاں فرمایا۔ یہ ماجرا دیکھ کر ابن مسعودؓ نے حضورؐ سے عرض کی: یہ دعا مجھے بھی سکھا دیں۔ آپؐ نے ابن مسعودؓ کے سر پر دست شفقت پھیرا اور فرمایا: ’’تم خود علم سکھانے والے پیارے بچے ہو۔‘‘ (یعنی تم استاد بنو گے)
حضرت ابن مسعودؓ سرکار دو عالمؐ کے قریبی اور پسندیدہ ساتھیوں میں سے تھے۔ آپؓ سفر و حضر میں حضورؐ کے ساتھ رہے۔ حضورؐ نے ان سے فرما رکھا تھا کہ ’’تمہیں میرے گھر میں حاضر ہونے کے لئے اجازت طلب کرنے کی ضرورت نہیں۔ پردہ اٹھا کر اندر آ جایا کرو اور ہماری باتیں سنا کرو۔‘‘
حضور اکرمؐ کی کچھ خاص خدمتیں ابن مسعودؓ کے سپرد تھیں۔ مثلاً جوتا مبارک اٹھانا، مسواک کو اپنے اپنے پاس رکھنا، آپ کے آگے چلنا، نہاتے وقت پردہ کرانا، خواب سے بیدار کرنا وغیر۔ (الاستیعاب)
ابتدائے اسلام میں جب اپنے اسلام کا اظہار نہایت مشکل تھا، آپؓ وہ پہلے مسلمان تھے جنہوں نے کعبہ شریف کے پاس کھڑے ہو کر مستانہ وار سورۃ الرحمٰن کی بآواز بلند تلاوت کی اور کفار مکہ کا ظلم برداشت کیا۔ (ابن ہشام)
حضور اکرمؐ نے فرمایا: قرآن مجید کو ان چار افراد سے حاصل کرو سب سے پہلے ابن مسعودؓ کا نام ذکر فرمایا: بعد ازاں ابی بن کعبؓ، سالمؓ اور معاذ بن جبلؓ کے اسمائے گرامی لئے۔ (بخاری و مسلم)
حضرت حذیفہؓ فرماتے ہیں کہ رسول اقدسؐ کے عادات و اطوار میں سیدنا ابن مسعودؓ سے مشابہت رکھنے والا میں نے کسی کو نہیں دیکھا۔ رسول اقدسؐ کے قریبی اصحابؓ کی نظر میں ابن مسعودؓ درجات کے اعتبار سے خدا تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں۔ (بخاری)
الاکمال فی اسماء الرجال میں ہے، رسول اقدسؐ نے فرمایا: ’’میں اپنی امت کے واسطے وہ پسند کرتا ہوں، جو ابن مسعودؓ اس کے واسطے پسند کریں اور امت کے واسطے اس چیز کو ناپسند کرتا ہوں جسے ابن مسعودؓ ناپسند کریں۔ اس فرمان عظمت نشان کو سامنے رکھتے ہوئے جب ہم دیکھتے ہیں تو ہمیں حضرت ابن مسعودؓ کا سب سے پہلا اجتہاد جو نظر آتا ہے وہ خلافت صدیق اکبرؓ کے بارے میں ہے۔ حضور اکرمؐ کے وصال کے بعد حضرت ابوبکر صدیقؓ کی خلافت کے بارے میں ابن مسعودؓ نے ان خوبصورت الفاظ میں اجتہاد کیا کہ ’’ہم اپنے دنیاوی معاملات کے لئے اسی شخصیت کو پسند کرتے ہیں جسے رسول اقدسؐ نے ہمارے دینی امور کے لئے پسند فرمایا ہے۔‘‘ یعنی جس ہستی کو حضورؐ نے نماز کی امامت کے لئے مقرر فرمایا ہے۔ اسی کو ہم خلافت کے لئے پسند کرتے ہیں۔ رسول اکرمؐ کی دعا کی برکت سے آپؓ صحابہؓ کے درمیان بڑے عالموں میں شمار کئے جاتے تھے۔ حق تعالیٰ نے آپؓ کو اس قدر علم کی دولت سے نوازا تھا کہ اس پر جتنا بھی رشک کیا جائے کم ہے۔ حضرت ابن مسعودؓ خود بیان فرماتے ہیں کہ: قسم اس ذات کی جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ قرآن شریف کی ہر سورت کے بارے میں مجھے علم ہے کہ وہ کب نازل ہوئی اور قرآن شریف کی ہر ہر آیت کے بارے میں مجھے علم ہے کہ وہ کب نازل ہوئی اور کس چیز کے متعلق نازل ہوئی۔ اگر مجھے یہ علم ہوتا کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ خدا کی کتاب کو جاننے والا ہے اور اونٹوں پر سفر کر کے اس کے پاس جانا ممکن ہوتا تو میں سفر کر کے اس کے پاس جاتا۔ (صحیح مسلم)
حضرت مسروقؒ کہتے ہیں کہ: ہم حضرت ابن عمروؓ کے پاس جاتے اور ان سے گفتگو کرتے۔ ابن نمیر کہتے ہیں : ایک دن ہم نے ان کے پاس حضرت ابن مسعودؓ کا ذکر کیا تو انہوں نے فر مایا کہ: تم نے مجھ سے اس شخص کا ذکر کیا ہے، جس سے میں اس وقت سے بے پناہ محبت کرتا ہوں، جب سے میں نے رسول اقدسؐ سے ایک حدیث سنی ہے۔ ( صحیح مسلم) آپؓ کی عظمت اور شان کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ: حضرت علیؓ کرتے ہیں کہ رسول اقدسؐ نے ارشاد فر مایا کہ: اگر میں بغیر مشورہ کے کسی اور کو امیر بناتا تو امِ عبد کے بیٹے یعنی ابن مسعودؓ کو بناتا۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post