پہلا حصہ
العربیہ کے مطابق دو برس قبل حج کے موقع پر جب سعودی عرب میں تعینات برطانوی سفیر سائمن کولیز اور ان کی اہلیہ ھدیٰ مجرکش کو احرام باندھے دیکھا گیا تو ان کی حج کی تصاویر نے غیر معمولی پذیرائی حاصل کی۔ یہ عقدہ بعد میں کھلا کہ دونوں میاں بیوی نے پانچ سال پہلے اسلام قبول کیا تھا، مگر ان کی قبولیت اسلام کی خبریں منظر عام پر نہیں آئیں۔
برطانوی سفیر سائمرکولیز اور ان کی اہلیہ کے دائرہ اسلام میں داخل ہونے اور فریضہ حج کی سعادت حاصل کرنے کی خبر نے تہلکہ مچا دیا اور سوشل میڈیا پر ان کی احرام والی تصویر کو بہت پسند کیا گیا ہے۔ ’’ٹیوئٹر‘‘ پر انہیں مبارک باد دینے والوں کا تانتا بندھ گیا۔ سعودی شہزادی بسمہ بنت سعود نے بھی برطانوی سفیر اور ان کی اہلیہ کو اسلام قبول کرنے اور حج کی سعادت حاصل کرنے پر ٹیوئٹر پر مبارک باد پیش کی۔ سائمن کولیز کا کہنا ہے کہ میں نے 30 سال کے غور و خوض اور طویل وقت اسلامی معاشروں میں گزارنے کے بعد اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا۔
قبول اسلام اور سیرت النبی پرکتاب کی تالیف:
ساٹھ سالہ سائمن کولیز کا سفارت کاری کا سفر 1978ء میں وزارت خارجہ میں ملازمت سے ہوا۔ وہ بیرون ملک سب سے پہلے بحرین میں سیکنڈ سیکریٹری کے عہدے پر فائز ہوئے۔ بعد ازاں قطر، عراق اور شام میں سفیر کے طور پر خدمات انجام دیں۔ بھارت میں فرسٹ سیکریٹری اور دبئی، بصرہ، تیونس اور عمان میں قونصل جنرل کے عہدے پر خدمات انجام دیں۔ فروری 2015ء کو انہیں سعودی عرب میں سفیر مقرر کیا گیا۔ وہ سنہ 2011ء میں اپنی شادی سے چند ماہ قبل اسلام قبول کر چکے تھے۔
اسلام قبول کرنے والے دیگر برطانوی مشاہیر میں جان فیلیپی بھی شامل ہیں۔ انہوں نے اسلام قبول کرنے کے بعد نام الشیخ عبد اللہ رکھا گیا تھا۔ یہ برطانوی انٹیلی جنس اداروں کے سابق ایجنٹ اور مصنف تھے۔ 1960ء میں انتقال کر گئے تھے۔ وہ چونکہ برطانوی انٹیلی جنس سے وابستہ تھے، اس لئے سلطنت عثمانیہ کے خلاف بھرپور کردار ادا کیا۔ سلطنت عثمانیہ کے مشرقی عرب علاقوں بالخصوص سعودی عرب، عراق، اردن اور فلسطین سے اثرات ختم کرنے میں ان کا کردار اہم مانا جاتا ہے۔ اس دوران ہی انہوں نے اسلام قبول کیا اور حرم مکی میں خطبہ بھی دیا۔ سعودی عرب کی آئل کمپنی ارامکو کی بنیاد رکھنے میں کلیدی کردار ادا کیا۔ نجد کی ایک خاتون سے شادی کی، جس سے ایک بچی بھی ہوئی تھی، جو ان کی اکلوتی اولاد تھی۔
پیدائشی مسلمان خوش نصیب ہیں کہ انہوں نے اسلام کی دولت ورثے میں پائی، مگر ناقدرے بھی ہیں کہ اس دولت کی حفاظت کے لیے نہ جدوجہد کی نہ قربانی دینی پڑی۔ کئی نومسلم خواتین و حضرات کی داستانیں پڑھ کر دل دہل جاتا ہے کہ انہوں نے اس راستے میں کتنی صعوبتیں جھیلیں اور ایمان کی منزل تک پہنچنے کے لیے انہیں آگ اور خون کے کتنے دریا عبور کرنے پڑے۔ ظلمات سے روشنی کے اس سفر کے جن خوش نصیب مسافروں نے اپنی داستان رقم کی ہے، ان میں نیویارک کے ایک یہودی گھرانے میں پیدا ہونے والی لڑکی مارگریٹ مارکس کی داستان بھی ہے۔ جو ایمان کی منزل تک پہنچنے کے لیے نیویارک کی چکاچوند روشنیوں کو چھوڑ کر پاکستان پہنچی۔ دینِ حق قبول کیا اور مریم جمیلہ بن کر زندگی کے چالیس سال ایک صاحبِ اولاد شخص محمد یوسف خان کی دوسری بیوی کی حیثیت سے سنت نگر لاہورکے پانچ مرلہ مکان میں اطمینان خوشی اور مسرت سے گزار ے اور اس دوران کئی معرکۃ الآراء کتابیں لکھیں۔
امریکا کی محترمہ آمنہ اور سسٹر امینہ کی جدوّجہد، قربانی اور استقامت سے بھرپور داستانیں بھی رونگٹے کھڑے کردینے والی ہیں۔ بہن کو شراب نہ پینے پر بھائی اور باپ تشدد کا نشانہ بناتے تھے۔ اس نے ماڈلنگ چھوڑ دی، نوکری چھوٹ گئی۔ فیملی نے قطع تعلق کر لیا۔ بے کسی اور بے چارگی میں حق کی تلاش جاری رہی اور بالآخر خدائے رحیم و کریم نے حق و صداقت کی منزلِ مراد تک پہنچا دیا۔ (جاری ہے)