اور ایک دانشور جج کی آمد

0

اب وہ عورت بوڑھی ہو چکی ہے، جس کی جوانی عدالتوں کے کٹہروں، جیل کی سلاخوں اور ٹارچر سیلوں کی بدبودار تنہائیوں میں گزری۔ وہ عورت اب کیلے فورنیا کی یونیورسٹی میں پروفیسر ہے، جو عورت ستّر کی عشرے میں مزاحمت کی علامت تھی۔ وہ ایسی عورت تھی، جس نے امریکہ کے ایک دور کو اپنے وجود کا بھرپور احساس دلانے والی ’’بلیک پینتھر پارٹی‘‘ میں شمولیت اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے شعور کا سفر جاری رکھا۔ اس عورت کو ہتھیار اچھے لگتے تھے، مگر ہتھیاروں سے زیادہ اس کے ہاتھوں میں کتابیں رہیں۔ وہ شاعر اور ادیب نہیں، مگر سوچنے والی، سمجھنے والی اور بغیر ڈر کے بولنے والی سیاہ فام خاتون ہیں۔
جی ہاں! آپ جان گئے ہوں گے کہ میں امریکہ کی عوامی ہیروئن ’’انجیلا ڈیوس‘‘ کی بات کر رہا ہوں۔ وہ انجیلا ڈیوس جس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ یہ سچائی ثابت کرنے میں کامیابی حاصل کی کہ ’’سیاہ رنگ بھی خوبصورت ہوتا ہے۔‘‘ وہ انجیلا ڈیوس ایک دور کی انسپائریشن تھی۔ وہ اینجلا ڈیوس ایک دور کی سیاسی اور سماجی ہیروئن تھی۔ وہ انجیلا ڈیوس جو بہت زیادہ کتابیں پڑھنے کی وجہ سے خوبصورت دماغ والی دانشور بن گئی۔ اس نے صرف مطالعہ اور مشاہدے سے ہی نہیں، بلکہ تجربہ سے بھی یہ سیکھا تھا کہ ’’جیلیں انسانوں کو بہتر انسان نہیں بناتیں، جیلیں ان کو نگل لیتی ہیں۔‘‘ اس کے یہ الفاظ آج بھی قانون کے انقلابی طالب العلم اپنی ڈائریوں میں محبت کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ’’اصل بات قانون اور انصاف کی نہیں ہے۔ اصل بات آپ کی سماجی حیثیت اور مہنگے وکیل کی ہے۔‘‘
انجیلا ڈیوس کی بہت ساری باتوں سے ہمیں اختلاف بھی ہو سکتا ہے، مگر اس حقیقت سے انکار کرنا ممکن نہیں کہ ’’جب تک قانون حالات کا قیدی رہے گا، تب تک وہ معاشرے کو آزاد نہیںکر سکتا۔‘‘ انجیلا ڈیوس کی یہ بات بھی بہت خوبصورت ہے کہ ’’انصاف اور انتقام میں فرق ہونا چاہئے۔‘‘ انجیلا ڈیوس کے ساتھ ساتھ ہمیں اس مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کو فراموش نہیں کرنا چاہئے، جس نے کہا تھا کہ:
’’Injustice anywhere is a threat to justice everywhere.‘‘
یعنی: ’’ناانصافی جس جگہ ہوگی، وہ انصاف کے لیے خطرہ بنے گی۔‘‘
مگر ہم صرف سیاہ فاموں کا تذکرہ کیوں کررہے ہیں؟ آخر سفید فام انسانوں نے بھی تو قانون اور انصاف کے بارے میں بہت کچھ سوچا، بہت کچھ لکھا اور بہت کچھ بولا ہے۔ مگر کیا انصاف کی کوئی نسل ہو سکتی ہے؟ کیا قانون کا کوئی رنگ ہونا چاہئے؟ اصولی طور پر نہیں، مگر عملی طور پر اب تک ہم قانون کو قانون اور انصاف کو انصاف کا درجہ دینے کی جدوجہد میں مصروف ہیں۔ مگر قانون اور انصاف کے بارے میں ہم اس قدر دانشورانہ گفتگو پر کیوں اتر آئے ہیں؟
اس سوال کا جواب سب جانتے ہیں کہ پاکستان میں ملکی قانون کی سب سے بڑی مسند پر ایک دانشور جج براجمان ہوئے ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے 26 ویں چیف جسٹس کا حلف اس شخص نے اٹھایا ہے، جو عالمی ادب سے شغف رکھتا ہے، مگر وہ نہ تو شاعر ہے اور نہ ادیب، مگر وہ اپنے مزاج میں بہت باذوق ہے۔ اس کی ہر رات کتاب کے ساتھ گزرتی ہے۔ اس کو قریب سے جاننے والوں کا کہنا ہے کہ اس کے پاس بہت اہم کتابوں کا بڑا ذخیرہ ہے۔ حالانکہ وہ ایک پروفیشنل قانون دان ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ وہ فیصلے لکھنے والے اپنے قانونی قلم کو ادب اور فلسفے کے مطالعے پر تیز کرتے ہیں۔ اس لیے وہ نوجوان وکلاء جن کے لیے قانون پیشہ نہیں، بلکہ پیشن ہے، ان کا موقف ہے کہ جسٹس کھوسہ صاحب فیصلہ لکھتے نہیں، بلکہ فیصلہ کرافٹ کرتے ہیں۔ وہ فیصلہ اس انداز سے لکھتے ہیں، جس انداز سے کوئی نورباف نامی کاریگر ہاتھ سے قالین بناتا ہے۔ جس طرح ایک سندھی عورت کپڑوں کے ٹکڑوں کو جوڑ کر ایک رلی بناتی ہے۔ جس طرح پکاسو ایک پینٹنگ بناتا تھا۔ جس طرح مائیکل اینجلو ایک مجسمہ تراشتا تھا۔ وہ جسٹس کھوسہ بھی اس طرح فیصلہ لکھتے ہیں، جو اب چیف جسٹس آف پاکستان بن گئے ہیں۔
پاکستان کے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد نے سو موٹو کی جو روایت ڈالی، اس کو ان کے بعد آنے والے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنے منطقی انجام تک پہنچایا۔ سابق چیف چوہدری افتخار محمد کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں میڈیا کی ہیڈ لائنس ہٹ کرنے میں ناقابل بیان لطف آتا تھا۔ ان کے دور میں وکیلوں سے زیادہ اہمیت صحافیوں نے حاصل کرلی تھی۔ وہ میڈیا میں نظر آنے والی ہر خبر کا نوٹس لیتے تھے۔ ان کے دور میں ایسا بھی ہوا کہ کچھ غلط خبریں بھی سوموٹو کی زد میں آئیں اور پھر پتہ چلا کہ وہ فیک نیوز تھیں۔ وکلاء کی تحریک کے ذریعے انصاف کی چھینی ہوئی مسند کو حاصل کرنے والے سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد نے ملک کے ہر بڑے شہر میں تقریر کرنے پہنچے، مگر جب وہ وکلائ، سول سوسائٹی اور میڈیا کی طاقت سے بحال ہوئے، تب ان کا وقت زیادہ تر عدالت میں ہی گزرا۔ جب کہ ان کے بعد آنے والے چیف جسٹس ثاقب نثار نے عدالت سے زیادہ باہر وقت گزارا۔ انہوں نے ہر جگہ چھاپے مارے اور ہر برائی کو ختم کرنے کی عملی کوشش کی۔ وہ اپنے اس انداز انصاف میں اس قدر محو ہوگئے تھے کہ انہوں نے ایک بار تو اپنے منہ سے کہا تھا کہ ’’میں ملازمت نہیں کر رہا۔ میں جہاد کر رہا ہوں۔‘‘
قانون کی ترازو لے کر ملک کی مارکیٹوں، اسپتالوں، تعلیمی اداروں اور جیلوں میں اصل حقیقت دیکھنے اور وہیں پر فیصلہ کرنے کی لگن میں مگن رہنے والے ثاقب نثار نے جیوڈیشل ایکٹوزم کی وہ مثال قائم کی تھی، جس سے آگے جانا ممکن نہیں ہے۔ وہ جنہوں نے انصاف اور قانون سے زیادہ ملک کو درپیش بڑے مسائل کو ختم کرنے میں اپنا وقت اور اپنی طاقت صرف کی۔ انہوں نے اپنے آخری مقدمے کو چلایا اور گلگت بلتستان کے عوام کو قانونی حقوق دینے کا فیصلہ سنا کر پورے ملک سے مخاطب ہوکر بولے کہ اگر انہوں نے کسی کی دل آزاری کی ہو تو وہ انہیں معاف کریں۔
پاکستان کے نئے چیف جسٹس نہ تو سابق چیف جسٹس چوہدری افتخار محمد جیسے ہیں اور نہ اپنے پیش رو جسٹس (ر) ثاقب نثار جیسے ہیں۔ وہ قانون کے چمن کے الگ پھول ہیں۔ ایک ایسے پھول جیسے پھول کا جنم بڑے عرصے کے بعد ہوتا ہے۔ جیسے پھول کے لیے باغ کی بلبل بڑا انتظار کرتی ہے۔ جس پھول کے کھلنے کو ایک نئے موسم کی نوید سمجھا جاتا ہے۔ راقم الحروف اس بات سے بھی آگاہ ہے کہ اس وقت انصاف کی اعلیٰ ترین مسند پر وہ شخص بیٹھا ہوا ہے، جو جج کی تعریف میں لکھے الفاظ کو بھی اگر توہین عدالت نہیں تو عدالت کے معاملات میں مداخلت ضرور سمجھ سکتا ہے۔ کیوں کہ وہ مکمل طور پر ایک پروفیشنل قانون دان ہیں۔ انصاف اور اقتدار کی مسند پر بیٹھنے والے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنے اچھے دنوں کو غور سے یاد کرکے ایک عدد کتاب لکھتے ہیں۔ مگر چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ وہ جج ہیں، جنہوں نے قانون کے بارے میں چار کتابیں تحریر کی ہیں۔ وہ ایک ایسے جج ہیں، جنہوں نے حلف لینے سے پہلے اور حلف لینے کے بعد ایسی کوئی بات نہیں کی، جس میں تضاد ہو۔ انہوں نے ایک تو اپنے سینئر سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے جذبے اور سچائی کی تعریف کی اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنا ایجنڈہ مختصر الفاظ میں اس طرح بیان کیا کہ انہیں بھی جھوٹے گواہوں کے آگے بند باندھنے ہوں گے اور انہیں زیر التواء مقدمات کا قرض اتارنا ہوگا۔ ان کے ان الفاظ سے صاف ظاہر ہے کہ ملک میں نظام عدل کو بہتر بنانے کے لیے کوشش کریں گے۔ وہ پروفیشنل قانون دان ہیں۔ ان کو معلوم ہے کہ ان کے پاس بااختیار بن کر کام کرنے کے لیے بہت قلیل وقت ہے۔ وہ ایک برس میں بہت سارا کام کرنا چاہتے ہیں۔ اس لیے وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کا زیادہ تر وقت میڈیا کی نذر ہو جائے۔ وہ ایک سمجھدار اور باوقار جج ہیں۔ وہ خطاب کرنے سے زیادہ کتاب پڑھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا دور مختصر، مگر ناقابل فراموش ہوگا۔ وہ قانون اور انصاف کے کلچر میں اوپر تک پہنچ رکھنے والے وکلاء کی ہمت افزائی کا سبب بننے سے زیادہ قانون کے علم کو زیادہ اہمیت دینے والی ثقافت کے علمبردار بنیں گے۔
چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ تیسری دنیا کے ممالک میں قانون اور انصاف حکومتوں اور حالات کا قیدی ہوتا ہے، مگر ان کو یہ بھی معلوم ہے کہ اس قید کی چابی کالے کوٹ والوں کے ہاتھ میں ہے۔ ہمارے نئے چیف جسٹس صرف دانشور نہیں، بلکہ دانا بھی ہیں۔ ان کو پتہ ہے کہ دوسرے کے کام میں مداخلت کرنے سے کہیں زیادہ بہتر ہے کہ اپنا کام اور بہتر انداز سے کیا جائے۔ ہمارے نئے چیف جسٹس انصاف اور قانون کی دنیا میں نئے نہیں ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ ملک کا عدالتی نظام بہت بڑی تبدیلی چاہتا ہے۔ اوپر کی عدالتوں میں تو پھر بھی کچھ نہ کچھ ہوتا ہے، مگر نیچے کی عدالتوں میں عوام کو انصاف کے بجائے اور تاریخ ملتی ہے۔ ہمارے چھوٹے شہروں میں جو قانون کا کلچر ہے، اس کلچر میں نہ کاپی کرکے ایل ایل بی کرنے والے وکیلوں کو قانون کے بارے میں کچھ علم ہے اور نہ سفارش پر بھرتی ہونے والے ججوں کو۔ اس دنیا میں عدالتوں کے سارے معاملات وہ کلرک چلاتے ہیں، جنہیں وکیلوں کی درخواستیں لکھنے کے ساتھ ساتھ ججوں کے فیصلے بھی لکھنے پڑتے ہیں۔ ہماری عدلیہ کو ملک میں سیاسی تحریک چلانے کے بجائے قانون کی علمی اور عملی تحریک چلانے پر غور کرنا ہوگا۔ اس وقت ہمارے آدرشی نوجوان وکلاء کو ایک ایسا چیف ملا ہے، جس نے اپنے فیصلوں میں کبھی مافیا پر لکھے ہوئے ناول ’’گاڈ فادر‘‘ کا حوالہ دیا ہے اور کبھی لبنان کے خوبصورت شاعر خلیل جبران کی مشہور نظم ’’افسوس اس قوم پر‘‘ کے اشعار لکھے ہیں۔ حالانکہ وہ سنجیدگی کے ساتھ یوگوسلاویہ کے سابق نائب صدر ملان دی جلاس کی سوانح حیات Land Without Justice کو سنجیدگی سے پڑھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ انصاف کے بغیر کوئی ریاست قائم نہیں رہ سکتی۔
کاش! تحریک انصاف کی حکومت کو یہ بات سمجھ میں آئے کہ ’’انصاف‘‘ محض ایک لفظ اور ایک نعرہ نہیں، بلکہ ایک تصور ہے۔ وہ تصور جب تک عمل میںنہیں آتا، تب عوام تڑپتے رہتے ہیں۔ ٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More