ملک بھر کے عوام کو شکایت ہے کہ پانچ ماہ گزرنے کے باوجود تحریک انصاف کی حکومت نے ان کے لئے کچھ نہیں کیا۔ اس کی جو کارکردگی اب تک سامنے آئی ہے، اس میں یوٹرن لیتے لیتے زگ زیگ راستے پر چلنے اور عام شہریوں پر مہنگائی کا بوجھ بڑھائے چلے جانے کو اہم ترین قرار دیا جاسکتا ہے۔ بظاہر یہ حکمراں جماعت کے نام کے بالکل برعکس انصاف کے منافی اقدام تصور کئے جا رہے ہیں، جبکہ وزیر اعظم عمران خان، ان کی کابینہ کے ارکان اور پارٹی کے کارکنان وفاقی اور پنجاب حکومت کی کارکردگی سے نہ صرف مطمئن بلکہ اسے اپنے لئے باعث افتخار تصور کرتے ہیں۔ ورنہ وفاقی وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا یہ نہ کہتے کہ ہمارے پاس ایک ووٹ کی بھی اکثریت ہے تو کسی کا باپ بھی پی ٹی آئی حکومت کو نہیں گرا سکتا۔ ان کے خیال میں صرف عمران خان وعدے پورے کریں گے، دوسروں کی سیاست دفن ہو جائے گی۔ روٹی، کپڑا، مکان، پانی، گیس اور بجلی ملتی تو سندھ کے حالات بہتر ہوتے۔ یہاں کام نہ کئے گئے تو وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ میری طبیعت سے واقف ہیں۔ بلاشبہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں نے ساٹھ سال تک اقتدار کے ایوانوں میں رہنے کے باوجود، پورے ملک کو کیا، اپنے گڑھ سندھ میں بھی روٹی، کپڑا اور مکان کا اپنا وعدہ پورا کرنا تو درکنار، اس سمت میں ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھایا، ورنہ قدرتی و انسانی وسائل سے مالا مال یہ صوبہ رشکِ جنت ہوتا۔ تھر کی صورتحال پیپلز پارٹی کی سندھ کے عوام سے بے نیازی اور بے حسی کی واضح مثال ہے۔ اب پارٹی نے آصف علی زرداری کے ساتھ بلاول بھٹو زرداری کو سیاست کے میدان میں اتارا ہے، جو بہت بڑھ چڑھ کے بول رہے کہ میں یہ کردوں گا، وہ کردوں گا، لیکن لیاری سے ان کی شکست نے پیپلز پارٹی کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ غالباً انہی کے وعدوں اور دعووں کو پیش نظر رکھتے ہوئے فیصل واوڈا نے کہا ہے کہ کسی کا باپ بھی تحریک انصاف کی حکومت کو نہیں گرا سکتا۔ باپ سے ان کا اشارہ آصف علی زرداری کی جانب لگتا ہے، جو اپنے اور خاندان و گروہ کے دیگر افراد کے خلاف سنگین الزامات و مقدمات کے باوجود کہہ رہے ہیں کہ ہمیں دیوار سے اتنا نہ لگائو کہ عوام میرے ہاتھ سے نکل جائیں۔ گویا آج ملک بھر کے عوام آصف علی زرداری جیسے شخص کے ساتھ ہیں، جبکہ ساری دنیا کھلی آنکھوں سے دیکھ رہی ہے کہ اب تو سندھ کے عوام بھی پیپلز پارٹی اور اس کی قیادت سے بیزار ہیں۔ بلاشبہ روٹی، کپڑا اور مکان کا وعدہ پیپلز پارٹی نے پورا نہیں کیا، لیکن تحریک انصاف کی ایک ووٹ پر قائم حکومت تو ان سے بچا کھچا بھی چھین لینا چاہتی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان کو پنجاب حکومت اور وزیر اعلیٰ عثمان بزدار پر بڑا ناز ہے کہ وہ غریب یا متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، اس لئے لوگوں کا دکھ درد جانتے ہیں اور ان کے لئے ضرور کام کریں گے۔ عدالت عظمیٰ ان کی صلاحیت اور کارکردگی پر کئی سوالات اٹھا چکی ہے، جس کا زبانی یا عملی جواب دینے کی پارٹی کے رہنمائوں نے کبھی ضرورت محسوس نہیں کی۔
تحریک انصاف وطن عزیز کے بائیس کروڑ عوام کو کچھ نہ دے سکے تو اتنی گئی گزری بھی نہیں کہ اپنے لوگوں کو نوازنے سے محروم رہے۔ تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی غضنفر عباس چھینا کی جانب سے ایوان میں ایک پرائیویٹ بل جمع کرایا گیا ہے، جس کے مطابق پنجاب اسمبلی کے ارکان کی تنخواہوں میں ایک ہزار فیصد سے زائد اضافے کی تجاویز پیش کی گئی ہیں۔ ان میں بنیادی تنخواہوں سمیت چھ مراعات میں اضافہ شامل ہے۔ بل پیش کرنے والے رکن پنجاب اسمبلی کا مؤقف ہے کہ اس اسمبلی کے ارکان کو بھی بلوچستان اسمبلی کے ارکان کے برابر تنخواہیں اور مراعات ملنی چاہئیں۔ وفاق اور پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے، جس کے سربراہ وزیراعظم عمران پہلے ہی شکایت کر چکے ہیں کہ وہ دنیا بھر سے قرضہ مانگتے پھر رہے ہیں، لیکن ان کے وزیروں، مشیروں اور پارٹی رہنمائوں کو ذرا بھی خیال نہیں۔ مذکورہ بل کے مطابق ارکان صوبائی اسمبلی کی بنیادی تنخواہ اٹھارہ ہزار روپے سے بڑھا کر تین لاکھ روپے ماہانہ اور ڈیلی الائونس ایک ہزار کے بجائے چار ہزار روپے کرنے کی تجویز ہے۔ دیگر اضافوں کی تفصیل یہ ہے: آمدورفت الائونس چھ سو روپے کے بجائے تین ہزار روپے ماہانہ، ایڈیشنل ٹریولنگ الائونس ایک لاکھ بیس ہزار کے بجائے پانچ لاکھ روپے سالانہ، کرایہ مکان انتیس ہزار کے بجائے پچاس ہزار روپے ماہانہ، یوٹیلٹی الائونس چھ ہزار کے بجائے بیس ہزار روپے اور تواضع الائونس دس ہزار کی جگہ پچاس ہزار روپے، پیٹرول الائونس تیس ہزار روپے اور گاڑی کی مرمت کا الائونس بارہ ہزار روپے ماہانہ تجویز کیا گیا ہے۔ یہ اعداد و شمار کویت، قطر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات یا برونائی دارالسلام کے نہیں، اس غریب ملک پاکستان کے ہیں جس کا نومولود بچہ بھی سوا لاکھ سے ڈیڑھ لاکھ روپے تک کا مقروض ہے۔ تحریک انصاف کے رکن پنجاب اسمبلی کا پیش کردہ یہ بل اس مقتدر و متمول طبقے کی ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے جو اقتدار کے ایوانوں میں اسی لئے آتا ہے کہ عوام کو کچھ ملے نہ ملے، وہ اپنے ارکان کی تنخواہیں من مانے طور پر بڑھانے کی قدرت حاصل کر سکے۔ یاد رہے کہ قومی اور صوبائی اسمبلی کا کوئی رکن قلاش اور تنگ دست نہیں ہوگا۔ اس کے پاس بنگلے، کوٹھیاں، زمینیں، بینک بیلنس اور اندرون و بیرون ملک جائیدادیں ہوتی ہیں۔ مشاہروں اور مراعات کے علاوہ اکثر ارکان اسمبلی کمیشن اور بھتوں کی الٹ پلٹ اور پلاٹ پرمٹوں کے حصول میں بھی سرگرم نظر آتے ہیں۔ اس کے باوجود ان کے پیٹ نہیں بھرتے۔ وزیر اعظم عمران خان اور تحریک انصاف کے دیگر رہنمائوں کو غضنفر عباس چھینا کی مذکورہ بل کے ذریعے پیش کی جانے والی تجاویز کا سخت نوٹس لینا چاہئے۔ وفاقی حکومت ایک ووٹ کی اکثریت سے اور پنجاب کی حکومت اکثریت کے بغیر قائم ہے۔ تحریک انصاف نے ہوش کے ناخن نہ لئے تو کسی کا باپ نہیں، بلکہ کوئی بیٹا بھی ان کی حکومت گرا سکتا ہے، خواہ بلاول بھٹو زرداری ہو، حمزہ شہباز ہو یا مونس الٰہی۔ ظلم کی حکومت تو قائم رہ سکتی ہے، لیکن ناانصافی کی حکومت نہیں، جبکہ تحریک انصاف کی نئی نویلی حکومت تو ابتدا ہی سے ظلم اور ناانصافی دونوں کا کھل کر مظاہرہ کر رہی ہے۔ ٭
Prev Post