ایک بار حضرت جنید بغدادیؒ کی مجلس وعظ میں چالیس افراد موجود تھے۔ آپؒ کے بیان کی اثر انگیزی جب اپنی انتہا کو پہنچی تو حاضرین میں سے بائیس افراد بے ہوش ہوگئے، باقی افراد خاموش بیٹھے رہے مگر آتش معرفت سے ان کے سینے جلنے لگے۔ پھر یہی جلتا ہوا غبار ان کی آنکھوں سے آنسو بن کر بہنے لگا۔ اپنی مجلس وعظ کا یہ حال دیکھ کر حضرت جنید بغدادیؒ نے وعظ گوئی ترک کردی۔
پھر جب اہل ذوق حضرات نے اصرار کیا تو حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا ’’میں اپنی ہی تقریروں کے ذریعے خود کو ہلاکت میں ڈالنا پسند نہیں کرتا۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ کے اس اعلان کے بعد صاحبان دل کی صفوں میں گہری اداسی چھا گئی۔ پھر ایک دن اہل بغداد نے دیکھا کہ حضرت شیخ جنیدؒ دوبارہ منبر پر جلوہ افروز ہوئے۔ آپ ؒنے ایسی اثر انگیز تقریر کی کہ لوگوں کے دل پگھلنے لگے اور آنکھیں دجلہ و فرات کا منظر پیش کرنے لگیں۔
تقریر ختم ہونے کے بعد کچھ قریبی دوستوں نے عرض کیا کہ اچانک اس تبدیلی کا سبب کیا ہے؟
جواب میں جنید بغدادیؒ نے فرمایا ’’میں نے اپنے آقا حضور اکرمؐ کی ایک حدیث مبارک دیکھی ہے۔ جس میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ مخلوق میں سے بدترین شخص مخلوق کا کفیل بن کر ہدایت کا راستہ دکھائے گا۔ چنانچہ میں نے اپنے آپ کو بدترین مخلوق تصور کر لیا ہے اور اسی لئے دوبارہ وعظ گوئی شروع کردی ہے۔‘‘
حدیث رسولؐ کا حقیقی مفہوم یہ ہے کہ مسلمان تقریر کے بجائے اپنے عمل سے اہل دنیا کو اسلام کی ترغیب دیتا ہے، یعنی وہ گفتار کے بجائے کردار کا غازی ہوتا ہے۔
حضرت جنید بغدادیؒ کا خود کو بدترین مخلوق قرار دینا، عجزو انکسار کی دلیل ہے اور اسی کا نام نفس کشی ہے۔
حضرت شیخ رویمؒ حضرت جنید بغدادیؒ کے گہرے دوست تھے۔ ایک بار شیخ رویمؒ کہیں جارہے تھے کہ انہیں ایک بڑھیا ملی۔ ضعیف خاتون نے شیخ رویمؒ کو روک کر کہا:
’’تم سے ایک ضروری کام ہے۔ اگر تم اسے تکمیل تک پہنچا سکو تو بیان کروں۔‘‘
حضرت شیخ رویمؒ نے وعدہ کر لیا۔
پھر اس ضعیف خاتون نے کہا ’’اگر تم شیخ جنیدؒ کی مجلس میں جائو تو ان سے کہنا کہ تمہیں عوام کے سامنے ذکر الٰہی کرتے ہوئے شرم نہیں آتی؟‘‘
جب شیخ رویمؒ نے بوڑھی عورت کے یہ الفاظ دہرائے تو حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا ’’میں عوام کے سامنے حق تعالیٰ کا ذکر اس لئے کرتا ہوں کہ دنیا میں کسی سے بھی اس کے ذکر کا حق ادا نہیں ہوسکتا۔‘‘
ایک بار حضرت جنید بغدادیؒ وعظ فرما رہے تھے۔ پھر جب آپ کی تقریر ختم ہوگئی تو ایک شخص اپنی نشست پر کھڑے ہو کر عرض کرنے لگا: ’’شیخ! آپ کی باتیں میرے فہم و ادراک سے بالا تر ہیں۔‘‘
جواب میں حضرت جنید بغدادیؒ نے فرمایا: ’’اپنی ستر سال کی عبادت قدموں کے نیچے رکھ کر سرنگوں ہوجا۔ پھر اگر میری باتیں تیری سمجھ میں نہ آئیں تو یقیناً میرا ہی قصور ہوگا۔‘‘
ایک بار کسی شخص نے آپؒ کے وعظ کی تعریف کرتے ہوئے کہا: ’’شیخ آپ کی تقریر بے مثال ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے حاضرین مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: ’’دراصل یہ شخص حق تعالیٰ کی قدرت و صناعی کی تعریف کررہا ہے کہ اسی ذات پاک نے جنید کے دل و دماغ کو کشادہ کیا ہے اور اسی نے یہ تاثیر زبان بخشی ہے۔‘‘ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post