معارف و مسائل
یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اصحاب جن کو حواریین کہا جاتا ہے، ان کی خصوصی صفت رافت و رحمت بیان فرمائی گئی ہے، جیسا کہ رسول کریمؐ کے صحابہ کرامؓ کی چند صفات سورئہ فتح میں بیان فرمائی ہیں، جن میں ایک صفت رحمآء بینھم بھی ہے، مگر وہاں اس صفت سے پہلے صحابہ کرامؓ کی خاص صفت اشدآء علی الکفار بھی بیان فرمائی ہے، وجہ فرق کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شریعت میں کفار سے جہاد و قتال کے احکام نہ تھے، اس لئے کفار کے مقابلے میں شدت ظاہر کرنے کا وہاں کوئی محل نہ تھا۔
رہبانیت کا مفہوم اور ضروری تشریح:
رہبانیت، رہبان کی طرف منسوب ہے، راہب اور رہبان کے معنی ہیں ڈرنے والا، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد جب بنی اسرائیل میں فسق و فجور عام ہو گیا، خصوصاً ملوک اور رؤساء نے احکام انجیل سے کھلی بغاوت شروع کر دی، ان میں جو کچھ علماء و صلحاء تھے، انہوں نے اس بدعملی سے روکا تو ان کو قتل کردیا گیا، جو کچھ بچ رہے انہوں نے دیکھا کہ اب منع کرنے اور مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں، اگر ہم ان لوگوں میں مل جل کر رہے تو ہمارا دین بھی برباد ہوگا، اس لئے ان لوگوں نے اپنے اوپر یہ بات لازم کرلی کہ اب دنیا کی سب جائز لذتیں اور آرام بھی چھوڑ دیں، نکاح نہ کریں، کھانے پینے کے سامان جمع کرنے کی فکر نہ کریں، رہنے سہنے کے لئے مکان اور گھر کا اہتمام نہ کریں، لوگوں سے دور کسی جنگل پہاڑ میں بسر کریں، یا پھر خانہ بدوشوں کی طرح زندگی سیاحت میں گزار دیں، تاکہ دین کے احکام پر آزادی سے پورا پورا عمل کر سکیں، ان کا یہ عمل چونکہ خدا کے خوف سے تھا، اس لئے ایسے لوگوں کو راہب یا رہبان کہا جانے لگا، ان کی طرف نسبت کر کے ان کے طریقہ کو رہبانیت سے تعبیر کرنے لگے۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post