حصہ اول
قاضی یحییٰ ابن یحییٰ مالکیؒ اندلس کے معروف قاضی اور اپنے وقت کے بلند پایہ عالم تھے۔ قاضی یحییٰ امام مالکؒ کے نامور شاگرد تھے۔ وہ عبد الرحمن ثانی کی حکومت میں زبردست اثر و رسوخ کے مالک تھے۔ خاص طور پر محکمہ قضاء تو مکمل طور پر انہی کی مرضی کے تابع تھا۔
’’مسلمان حکمران‘‘ کے مصنف رقم طراز ہیں: اس نے (عبد الرحمٰن نے) عملاً ریاست کی دیکھ بھال، عدل و انصاف کے قیام اور اخلاق حسنہ کی ترویج کا کام اپنے وقت کے سب سے بڑے عالم حضرت امام یحییٰؒ کے سپرد کر رکھا تھا۔ اندلس کے بیس ہزار سے زائد قاضی اور علماء اسی ایک امام کے حکم کے تابع تھے اور یہ امام ایسے زبردست کردار کے مالک تھے کہ ان پر کوئی لالچ اور کوئی سفارش کارگر نہ ہوتی تھی۔
شریعت کا فیصلہ ان کے نزدیک آخری محبت تھا۔ وہ شریعت کے حکم (فیصلہ) کے سامنے نہ بادشاہ کے حکم کی پروا کرتے تھے اور نہ کسی دولت کو خاطر میں لاتے تھے۔
علامہ مقریؒ نے امام یحییٰؒ کے ایک فیصلے کی مثال دی ہے۔ علامہ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ عبد الرحمٰن ثانی نے جو اس وقت کی دنیا کا سب سے بڑا حکمران تھا، رمضان کا ایک روزہ قضا کیا۔ نیک نفس بادشاہ نے اپنی اس کوتاہی کی روداد اور کیفیت علماء کے سامنے پیش کی۔
امام یحییٰ نے جو علماء کے بورڈ کے صدر (چیف جسٹس) تھے، فتویٰ دیا کہ بادشاہ اس قصور اور کوتاہی پر 60 روزے رکھے۔ ایک اور عالم نے جو اس موقع پر موجود تھے، باہر آکر امام یحییٰؒ سے کہا کہ حضور! شریعت کی طرف سے اس بات کی بھی اجازت دی گئی ہے کہ روزہ قضاء کرنے کے جرم میں ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا دیا جاتا۔ آپ نے بادشاہ سے روزہ رکھوانے کے حکم کے بجائے ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانے کا فتویٰ کیوں نہیں دیا؟
امام یحییٰؒ نے بڑے غصے کے ساتھ اس عالم کو دیکھا اور فرمایا کہ بادشاہوں کے لیے ساٹھ آدمیوں کو کھانا کھلانا کوئی سزا نہیں ہے۔
تاریخ اندلس کہتی ہے کہ عبد الرحمٰن ثانی نے امام یحییٰؒ کے فتویٰ کی بنا پر ساٹھ دن پے در پے روزے رکھے اور اس کی پیشانی پر بل نہیں آیا اور نہ ہی اسے امام یحییٰؒ کے فیصلے کی حکم عدولی کا خیال دل میں آیا۔
تاریخ المشاہیر کے مصنف نے اس واقعے کو ذرا وضاحت کے ساتھ بیان کیا ہے، جو اس طرح ہے:
احمد بن ابو الفیاض لکھتے ہیں کہ میں امیر عبد الرحمٰن اور سلطان اندلس کی خدمت میں حاضر تھا۔ سلطان نے فقہاء کو طلب کیا۔ رمضان کا مہینہ تھا۔ کہا میں نے رمضان المبارک کا ایک روزہ توڑ دیا ہے۔ نفس سے مغلوب ہونے کے باعث مجھ سے غلطی ہو گئی، جس پر اب نادم ہوں، ایسی صورت میں کیا کیا جائے؟
امام یحییٰ بن یحییٰؒ نے کہا کہ دو ماہ کے مسلسل روزے رکھنے چاہئیں۔ امام یحییٰ بن یحییٰؒ کے بعد پھر کسی فقیہ کی جرأت نہ ہوئی، جو ان کے بعد کچھ بولتا۔
جب دربار سے باہر نکلے تو لوگوں نے کہا کہ آج آپ نے (امام ابوحنیفہؒ کے مسلک پر کیوں فتویٰ دیا) امام مالکؒ کے مذہب (مسلک) پر فتویٰ کیوں نہ دیا؟ کیونکہ ان کے نزدیک تو کفارہ کی تینوں صورتیں برابر ہیں، خواہ کوئی روزہ رکھے، خواہ غلام آزاد کر دے یا مسکینوں کو کھانا کھلا دے۔
آپ نے کہا کہ، اگر ہم سلطان (حکمران) کے لیے بھی یہ دروازہ کھول دیں تو اس کے لیے ایک معمولی بات ہو جائے گی کہ اس طرح روز روزہ توڑ لیا کریں اور غلام آزاد کر دیا کریں یا کھانا کھلا دیا کریں۔
اسی لیے سب نے اس (حکمران) کیلئے وہ صورت تجویز کی، جو نہایت سخت ہے اور جس میں اس کے نفس کی اصلاح مقصود ہے۔(جاری ہے)
Prev Post
Next Post