قاضی تنوخیؒ نے لکھا ہے کہ ایک آدمی شام کے وقت مدینۃ السلام (بغداد) سے ایک خطرناک علاقے کی مغربی جانب آنکلا۔ اس کے پاس کافی دراہم تھے۔ وہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے لگا جو اس کی مہمان نوازی کرسکے۔ چناں چہ اس نے وہاں کے لوگوں میں سے ایک آدمی سے مل کر کہا: ’’میں مسافر ہوں اور آپ کے ہاں رات گزارنا چاہتا ہوں‘‘ تو وہ شخص اس کو اپنے گھر لے گیا۔ گھر لے جانے کے بعد اس کو معلوم ہوا کہ مہمان کے پاس مال ہے تو اس نے اپنے دل میں اس کو قتل کرنے کا اور مال لینے کا ارادہ کر لیا۔
اس میزبان کا ایک نوجوان بیٹا تھا، اس نے اپنے بیٹے کو مہمان کے کمرے میں جوتوں کے پاس سلا دیا۔ اس کے بیٹے کو معلوم نہ تھا کہ اس کے والد نے کیا برا ارادہ کر رکھا ہے۔ چناں چہ وہ آدمی ان دونون کی جگہ کو اچھی طرح پہچانتے ہوئے چراغ کر بجھا کر چلا گیا۔
سو یہ بات مقدر میں لکھی ہوئی تھی کہ بیٹا اپنی جگہ سے مہمان کی جگہ پر منتقل ہو جائے اور مہمان بیٹے کی جگہ پر منتقل ہو جائے۔ ابھی رات کا ایک حصہ بھی نہیں گزرا تھا کہ نوجوان کے والد مہمان کو تلاش کرتے ہوئے اپنے بیٹے کے پاس پہنچا اورا ن کو ذرا بھی شک نہ گزرا کہ یہ اس کا اپنا بیٹا ہے تو اس کا گلا گھونٹ دیا اور وہ بے چارہ تڑپ تڑپ کر مر گیا۔
اتنے میں مہمان اس کے تڑپنے سے بیدار ہو گیا اور جب اس نے اپنے قتل کے منصوبے کو دیکھا تو وہ چیختا ہوا بھاگ نکلا۔ چناں چہ پڑوسیوں نے وجہ معلوم کرنے پر اس کی مدد کی اور اس آدمی کے پاس گئے۔
تو انہوں نے اس کو موقع پر آتے ہی گرفتار کر لیا اور اس سے بیٹے کے قتل کا اقرار کروا کر جیل میں ڈال دیا، پھر اس کے گھر سے مال لے کر مہمان کو لوٹا دیا اور وہ صحیح سلامت واپس چلا گیا۔ یوں اس شخص کو اس کی خیانت کی سزا مل گئی۔ مہمان کا مال بھی حاصل نہ کرسکا، اپنا جوان بیٹا بھی مار دیا اور قید کی سزا بھی بھگتنا پڑی۔
(نشوار المحاضرۃ اخبار المذاکرۃ للقاضی التنوخی: 87/4)
حجاج کے قتل کرنے کی عادت
مدائنی نے اپنی کتاب ’’الفرج بعد الشدۃ‘‘ میں ذکر کیا ہے کہ:
’’حجاج کے قیدیوں میں سے ایک قیدی نے ہمیں بتایا کہ زاویہ والے دن میں ابن الاشعث کے ساتھیوں میں سے ایک قیدی تھا۔‘‘
حجاج بن یوسف نے عام قیدیوں کو قتل کرنا شروع کیا تو ہماری تھوڑی سی جماعت باقی رہ گئی۔ چناں چہ حجاج ایک آدمی کے پاس اس کی گردن اڑانے کے لیے آیا توا س نے کہا: ’’اے حجاج! خدا کی قسم! اگر ہم نے برا کام کیا ہے تو تم نے سزا دینے میں کون سی رعایت برتی ہے اور اگر ہم نے ذلت کا کام کیا ہے تو تم نے کونسا معاف کر دیا۔‘‘
حجاج نے کہا: ’’اسے چھوڑ دو تو اسے چھوڑ دیا گیا۔‘‘
اس کے بعد حجاج نے اس سے کہا: ’’مجھے بتاؤ تم نے یہ کیسے کہا؟‘‘
تو اس نے بات دہرا دی۔
حجاج نے کہا: ’’اس نے مجھ سے سچ بولا ہے۔ خدا کی قسم! تف ہو ان مردہ لاشوں پر، کیا ان میں کوئی ایسا شخص نہ تھا جو ہم کو تنبیہ کرتا جیسا کہ ہمیں اس شخص نے اپنے بارے میں اور باقی قیدیوں کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔
پھر حجاج نے کہا: ’’ان سب کو رہا کر دو۔‘‘
یوں ایک شخص کی جرأت و ہمت کے باعث پوری جماعت کی جان بچ گئی۔ ٭
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post