حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے قیام اجمیر کے سلسلے میں میں یہ روایت مشہور ہے کہ جب آپؒ اس تاریخی مقام پر تشریف لائے تو شہر سے باہر ایک طویل و عریض میدان میں درخت کے نیچے قیام کیا۔ حضرت خواجہؒ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ یہ راجہ پرتھوی راج چوہان کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ آپؒ کچھ دیر آرام فرماتے رہے۔ اچانک ساربانوں کی نظر ایک ایسے درویش پر پڑی جو اپنے ظاہری حلیے کے اعتبار سے تمام جوگیوں اور سادھوؤں سے مختلف تھا۔ ساربان تیزی سے حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے قریب آئے اور انتہائی تلخ لہجے میں کہنے لگے۔
’’اے شخص! تو کون ہے اور یہاں کس لئے آیا ہے؟‘‘
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے ساربانوں کی تلخ کلامی کو نظر انداز کرتے ہوئے فرمایا: ’’میں خدا کا ایک بندہ ہوں اور اس پیڑ کے سائے میں کچھ دیر آرام کرنے کے لئے ٹھہر گیا ہوں‘‘۔
’’یہ راجہ کے اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ ہے۔ یہاں کوئی دوسرا قیام نہیں کر سکتا‘‘۔ ساربانوں کے دلوں پر آپؒ کی شیریں کلامی کا کوئی اثر نہیں ہوا۔
’’یہ تو بہت بڑا میدان ہے۔ راجہ کے اونٹ بھی بیٹھ جائیں گے اور میں بھی ایک گوشے میں سما جاؤں گا‘‘۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے لہجے میں اسلام کی وہی روایتی مٹھاس تھی، مگر ساربان نہیں مانے۔ ان کی غیر مہذبانہ گفتگو اب گستاخی اور بے ادبی میں تبدیل ہوگئی تھی۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ نے اپنا مختصر ترین سامان اٹھایا اور یہ کہتے ہوئے اپنی جگہ سے اٹھ گئے۔
’’خیر! یہ درویش تو یہاں سے اٹھ جاتا ہے، مگر اس کے بعد یہاں جو بھی آکر بیٹھے گا، پھر اسے کوئی نہیں اٹھا سکے گا‘‘۔
ساربانوں نے خوب تمسخر کیا، قہقہے لگائے، مگر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ ان کی تمام باتوں سے بے نیاز ’’اناساگر‘‘ کی طرف چلے گئے۔ (یہ اجمیر کے نواح میں ایک قدیم تالاب تھا، جس میں اعلیٰ ذات کے ہندو غسل کیا کرتے تھے۔ حضرت خواجہؒ کی تحریک کی کامیابی کے بعد یہ تالاب مسلمانوں کے استعمال میں آنے لگا۔ اناساگر حضرت خواجہؒ کے مزار سے چار پانچ میل کے فاصلے پر واقع ہے۔ عرس کے دنوں میں اس پختہ تالاب کے کنارے کنارے ہزاروں مسلمان وضو کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ماضی کے حکمرانوں نے سوچا بھی نہ ہوگا کہ ان کی جاگیر اتنی آسانی سے مسلمانوں کے قبضے میں چلی جائے گی)
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے تشریف لے جانے کے بعد شام کے قریب پرتھوی راج چوہان کے اونٹ گھاس چرتے ہوئے میدان میں داخل ہوئے اور رات گزارنے کے لئے زمین پر بیٹھ گئے۔ صبح ہوئی تو حسب معمول ساربان آئے اور جب انہوں نے اونٹوں کو اٹھایا تو وہ اپنی جگہ سے جنبش بھی نہ کر سکے۔ ساربانوں نے دوبارہ کوشش کی، مگر ناکام رہے۔ پھر بے گناہ جانوروں پر کوڑے برسنے لگے، یہاں تک کہ بعض اونٹ لہولہان ہو گئے، لیکن زمین سے نہ اٹھ سکے۔ معصوم اور بے زبان حیوانوں پر تشدد کے سارے حربے آزمانے کے بعد ساربانوں کو درویش کے الفاظ یاد آئے۔
اب انہیں اندازہ ہوگیا تھا کہ یہ سب کچھ اسی فقیر کی بد دعا کا نتیجہ ہے۔ اس احساس کے ساتھ ہی ساربانوں کے ہوش اُڑ گئے۔ پھر ان لوگوں نے اسی میں عافیت سمجھی کہ سمراٹ پرتھوی راج چوہان کو تمام حالات سے آگاہ کر دیا جائے۔
جب ساربانوں نے دہلی اور اجمیر کے حاکم کو یہ واقعہ سنایا تو وہ سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اس نے اپنے خدمت گاروں کو ڈانٹتے ہوئے کہا: ’’یقیناً تم لوگوں نے کوئی زیادتی کی ہوگی، ورنہ یہ سادھو سنت تو بہت رحم دل ہوتے ہیں۔ اب یہ اونٹ اسی کی دعا سے اٹھیں گے، جس کی بد دعا سے زمین نے انہیں پکڑ لیا ہے۔ جاؤ! اس سادھو سے معافی مانگو‘‘۔
پرتھوی راج چوہان کا حکم سنتے ہی ساربان، حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی تلاش میں نکلے۔ کچھ دیر بعد ان لوگوں نے دیکھا کہ آپؒ ’’اناساگر‘‘ کے کنارے ایک درخت کے نیچے بیٹھے ہیں۔ ساربانوں نے قریب جا کر دست بستہ معافی مانگی۔ حضرت خواجہؒ نے فرمایا:
’’اچھا جاؤ! زمین تمہارے اونٹوں کو چھوڑ دے گی‘‘۔
ساربان اپنی مذہبی رسم کے مطابق حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے پاؤں چھو کر واپس آئے تو ان کے اونٹ میدان میں اِدھر اُدھر پھر رہے تھے۔
یہ سر زمینِ اجمیر پر حضرت خواجہؒ کی دوسری کرامت تھی۔ جب ساربانوں نے اپنے ہم مذہبوں کے سامنے اس واقعہ کو دہرایا تو مقامی باشندوں میں سنسنی پھیل گئی۔ اس وقت سارا ہندوستان توہم پرستی اور جادوگری کے دام میں اسیر تھا۔ بیشتر لوگوں نے حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی اس کرامت کا ذکر سن کر کہا:
’’وہ بڑا ساحر ہے۔ آؤ چل کر اس کے ساحرانہ کمالات دیکھیں‘‘۔ (جاری ہے)
Prev Post
Next Post