تثلیث سے تو حید تک

0

میری ریسرچ نے مجھے اسلام کے چند گنے چنے حقائق سے بڑھ کر، مزید بہت کچھ سیکھنے کا موقع دیا، کیونکہ اسلام ایک زندہ مذہب ہے۔ میں نے دیکھا کہ مسلمان کس طرح ایک دوسرے سے عزت و احترام اور رحم دلی کا برتائو کرتے ہیں، جو ان کو امریکا کے جنسی مقابلہ بازی اور بربادی کے بازارِ غلامی سے بلند کر دیتے ہیں۔ میں نے یہ بھی دیکھا کہ مسلمان مرد اور عورت، ایک دوسرے کو جسمانی اور لفظی طور پر توڑنے پھوڑنے اور بھنبھوڑنے کے بغیر بھی، تنہائی میں رہ لیتے ہیں اور میں نے یہ بھی جان لیا کہ باحیا لباس، انسانی برتائو اور کردار کو عظمت دے سکتا ہے اور مردوں، عورتوں، دونوں کو اپنی روحانی دولت سے مالا مال کر دیتا ہے۔
امریکی عورت آزاد یا غلام؟
اکثر امریکی عورتوں کی طرح، میں بھی بازارِ غلامی میں پلی بڑھی۔ ہمارے گھرانے میں جنسی بیماریوں کا راج تھا، بلکہ ہم عمر لوگوں کی طرف سے میرے ظاہری خد وخال پر مسلسل منفی تنقید بھی ہوتی رہتی تھی۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ یہ تنقید سات سال سے بھی کم عمر کے بچے، بچیاں شروع کر دیتے تھے۔ امریکی معاشرے نے مجھے بہت کم عمری سے ہی سمجھا دیا تھا کہ دوسروں کے لیے میری انسانی قیمت صرف اور صرف میری ظاہری شکل و صورت کی وجہ سے ہے، میں اس قسم کی قیمت سے محروم تھی۔
یہ کہنا بے جا نہیں ہے کہ ایسے ماحول میں، لڑکی اور لڑکیاں، مرد اور عورتیں ایک دوسرے سے بے حد کینہ رکھتے ہیں اور ہم عصر افراد پر مکمل طور پر نہ سہی، لیکن زیادہ تر ان کی رحم دلی، محبت… یہاں تک کہ ذہانت کی وجہ سے نہیں، بلکہ ان کی ظاہری شکل و صورت اور دوسروں کی طرف سے اس شکل و صورت کے احساس و ادراک کرنے پر انحصار کرتے ہیں۔
اگرچہ میں یہ توقع نہیں رکھتی، نہ ہی سمجھتی ہوں کہ مسلمان، مکمل انسان ہوتے ہیں، لیکن اس کے باوجود معاشرتی فرق بالکل واضح ہے اور میرے جیسے فرد کے لیے ناقابل یقین ہے۔ میرے پاس مشرق وسطیٰ کے تنازعات کے حل کا کوئی جواب نہیں ہے اور سوائے اس کے کہ اسلام کے محبوب، پیغمبرؐ نے پہلے ہی پیش کیے ہیں۔ اپنی معذوری کی وجہ سے میں نہ تو روزہ رکھ سکتی ہوں نہ ہی اس طرح نماز ادا کر سکتی ہوں، جس طرح آپ پڑھتے ہیں۔
لیکن میں دوسری جگہوں پر ملنے والے مسلمان مردوں اور عورتوں کے برتائو اور باتوں کی وجہ سے اسلام سے محبت کرتی ہوں اور اس کی قدر کرتی ہوں، کیونکہ میں نے دیکھا ہے کہ یہاں کسی کے جذبات کو ظالمانہ طریقے سے مجروح نہیں کیا جاتا۔ یہاں میں نے روحانیت کا واضح احساس پایا ہے۔
اسلام کی پاکیزگی:
میں اسلام کی تعلیمات کی قدر اور حمایت کرتی ہوں، جس میں انسانیت کے لیے احترام ہوتا ہے۔ جو معاشرے میں عورتوں اور مردوں کو یکساں حقوق دیتا ہے، اس کے باحیا لباس کی قدر کرتی ہوں اور سب سے بڑھ کر اسلام کی پاکیزگی سے بھرپور زندگی اور شادی کے اصولوں نے مجھے بے حد متاثر کیا ہے۔ کیونکہ میں خود ساڑھے اکیس سال کی پاک باز اور شادی شدہ عورت ہوں۔ یہ احساس کتنا دلچسپ و عجیب ہے کہ دنیا کے سوا ارب مسلمان میرے عقیدے میں شریک ہیں۔ شادی ہمارے کردار کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتی ہے اور اسلام کی یہ ہدایت کیسی شاندار ہے کہ ہمیں نشے اور شراب نوشی سے پاک زندگی گزارنی چاہیے۔
ایک ایسے معاشرے میں جہاں ہمیں نتائج کی پروا کیے بغیر اپنے کنوار پن کو بغیر شادی کے جنسی تعلقات کی قربان گاہ پر قربان کرنے کے لیے مستقل دبائو کا سامنا رہتا ہے، وہاں اسلام ہمیں حکم دیتا ہے کہ ہم خود کو وہ انسان سمجھ لیں جس کو خدا تعالیٰ نے دوسروں کے ساتھ تعلقات میں ذمہ داری کا رویہ رکھنے کی صلاحیت دے کر پیدا کیا ہے۔
نماز، زکوٰۃ و خیرات کے ذریعے اور پرہیز گاری و علم کے ساتھ گہرا تعلق رکھتے ہوئے اگر ہم اسلام کے راستے پر چلیں گے تو ہم اپنے بچوں کی ایسی تربیت کر سکیں گے کہ وہ اس ظلم و تشدد اور تباہی سے بچ سکیں گے جو اسکولوں اور پڑوس کے بچوں اور والدین اور اکثر اوقات خود ان کی زندگی کو تباہ کر رہے ہیں۔ اس چیز نے اسلام سے متعلق میرے ابتدائی خیالات کو مزید مضبوط بنایا اور ہمیں اظہار کی جرأت دی کہ یہ ایک نادر اور انمول معاشرہ ہے کیونکہ اس میں خدا کی طرف سے شادی، پرہیز گاری، پاک بازی اور کئی دوسری ذمہ داریوں کی شکل میں، اسلام نے جہنم سے دوری کا راستہ دکھایا ہے۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More