عبد الرحمٰن ثانی کے ایک قاضی محمد بن سلمؒ بھی تھے۔ جو قرطبہ کی عدالت کے بڑے قاضی یعنی (چیف جسٹس) تھے۔ ان کی منصف مزاجی اور عدل و انصاف کا یہ عالم تھا کہ بڑے سے بڑے سرکاری افسر کے جرم کو بھی معاف نہ کرتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ عبد الرحمٰن ثانی نے انہیں وزیر عدلیہ کا منصب بھی سونپ رکھا تھا۔ افتتاح اندلس کے حوالے سے مسلمان حکمران کا مصنف رقم طراز ہے:
’’بیان کیا گیا ہے کہ ایک مرتبہ قاضی محمد بن سلمؒ کے سامنے ایک قتل کا مقدمہ پیش ہوا۔ پولیس قصابوں کے محلے سے ایک لاش اٹھوا کر لائی، جو بوری میں بند تھی۔ بوری بالکل نئی تھی۔ قاضی صاحبؒ نے بوری دیکھتے ہی پولیس کے افسر اعلیٰ کو حکم دیا کہ شہر کے ان تمام دکانداروں کو ان کے حضور پیش کرے، جو بوریاں فروخت کرتے ہیں۔ پولیس ان سب دکانداروں کو لے آئی۔
قاضی صاحبؒ نے ایک ایک دکاندار کو یہ بوری دکھائی اور اس پر جرح کی۔ جس دکاندار سے یہ بوری خریدی گئی تھی، اس نے اس بات کا اعتراف کر لیا کہ اس کے پاس سے بادشاہ وقت کے فلاں خادم نے یہ بوری خریدی تھی۔ یہ خادم بڑا با اقتدار آدمی تھا، مگر قاضی صاحبؒ نے اس کے اقتدار کی پروا کئے بغیر پولیس کو بھیج کر اسے گرفتار کرایا اور اس کے اعتراف جرم کے بعد اسے قصاص میں قتل کرا دیا۔ حالانکہ جب قاضی صاحبؒ کے حکم نامہ پر پولیس اسے گرفتار کرنے گئی تو وہ اس وقت بادشاہ وقت کی خدمت خاص میں تھا۔
بادشاہ نے اس کی گرفتاری کے عمل میں کوئی مداخلت نہ کی اور اسے قاضی صاحب کے سپرد کر دیا۔ (تاریخ اندلس۔ پروفیسر ضیاء 363)
عبد الرحمٰن (حکمران) خود عدل و انصاف کا بڑا دلدادہ تھا۔ اس میں جہاں اور بہت سی خوبیاں تھیں، وہاں عدل و انصاف کے قیام کے معاملے میں بھی اس کا بہت اونچا مقام تھا۔ اس کے عہد میں کوئی بیس ہزار عدالتیں تھیں، جن میں رعایا کے ساتھ پورا پورا انصاف کیا جاتا تھا۔ بقول مصنف ’’مسلمان حکمران‘‘ ملک کی بیس ہزار عدالتیں جو زیادہ تر ایک ایک جج پر مشتمل تھیں۔ مدعی یا مدعا علیہ کو ایک پیسہ کے خرچ کے بغیر انصاف و عدل مہیا کرتیں۔ ان تمام عدالتوں میں نہ کوئی رشوت لی جاتی اور نہ کسی کی سفارش کو قبول کیا جاتا تھا۔
قاضی مندر بن سعید:
قاضی مندر بن سعیدؒ اندلس کے ایک بڑے اور عظیم الشان حکمران عبد الرحمٰن الناصر (300ھ، 912ء تا 350ھ 961ئ) کے زمانے کی ایک بہت اہم اور نامور شخصیت تھے۔ آپ بہت نڈر، حق گو، بے باک، دیانت دار اور بڑے عالم و فاضل تھے۔
دروغ گوئی اور خوشامد و تعلق سے انتہائی نفرت تھی۔
جب قاضی مقرر ہوئے، تو عدل و انصاف کا پورا پورا حق ادا کیا۔ اس معاملے میں وہ بادشاہ تک کی بھی پروا نہیں کرتے تھے۔
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ عبد الرحمٰن الناصر (حاکم وقت) کو ایک عمارت کی توسیع کے لیے جب ایک جگہ پسند آئی، تو پتہ چلا کہ وہ یتیم بچوں کی ملکیت ہے، جو قاضی مندر کی نگرانی میں ہے۔ قاضی صاحب کو جب اطلاع ہوئی، تو باوجود اس امر کے کہ وہ بادشاہ کے ملازم (چیف جسٹس) تھے اور وہ زمین ان کا ہی حکمران خریدنا چاہتا تھا۔ انہوں نے اس کو فروخت کرنے سے انکار کر دیا اور یہ کہلا بھیجا کہ جب تک مندرجہ ذیل تین شرطوں میں سے کوئی ایک شرط پوری نہ ہو، زمین کو فروخت کرنا مشکل ہے۔
-1 یا تو کوئی سخت ضرورت لاحق ہو کہ اس کی خرید ناگزیر ہو۔
-2 یا جائیداد کے مٹ جانے یا برباد ہو جانے کا خطرہ لاحق ہو۔
-3 یا پھر ایسی رقم پیش کی جا رہی ہو جس سے غریب یتیموں کا فائدہ ہو۔
کیونکہ بظاہر ان تینوں شرطوں میں سے کسی کی تکمیل نہیں ہوئی، لہٰذا یہ سودا بھی نہیں ہو سکتا۔
ملازمین شاہی کو جب قاضی صاحب کا یہ عندیہ معلوم ہوا تو بہت ڈرے اور چاہا کہ بالا ہی بالا یہ معاملہ طے کریں اور خواہ مخواہ سلطان کے کانوں تک یہ بات پہنچا کر اس کی طبیعت میں ناگواری نہ پیدا کریں۔ ملازمین نے کچھ جبر سے بھی کام لینا چاہا۔ قاضی صاحب کو یہ بات بہت ناگوار معلوم ہوئی اور انہوں نے مکان کو منہدم کرا کر زمین کو دگنی قیمت پر فروخت کر دیا۔ عبد الرحمٰن کو اطلاع ہوئی، تو اس نے فوراً قاضی کو طلب کر لیا اور اس حرکت کی وجہ پوچھی۔ انہوں نے جواب دیا کہ مجھے وہ واقعہ یاد آگیا کہ کسی ملک میں کچھ لوگ اپنی گزر اوقات ایک کشتی کے ذریعے کرتے تھے، مگر کشتی (جہاز) کو بڑی بدتر حالت میں رکھتے، کیونکہ اس ملک کے بادشاہ کی عادت تھی کہ جب کسی اچھے جہاز (کشتی) کو دیکھتا تھا، تو اس پر قبضہ کر لیتا تھا۔ یہ اشارہ دراصل قرآن مجید کی ایک آیت کی طرف تھا۔ بادشاہ نے جب یہ سنا تو اپنے ملازمین کی حرکت پر شرمندہ ہوا اور قاضی صاحب پر ناراض ہونے کے بجائے ان سے معافی مانگی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post