اجمیر کے باشندے قطار در قطار حضرت خواجہؒ کو دیکھنے کے لئے آنے لگے، مگر وہاں نہ کوئی جادو گری تھی، نہ شعبدہ بازی۔ بس ایک شگفتہ مسکراہٹ تھی، جس نے آگ میں پھول کھلا دیئے تھے۔ ایک حسن اخلاق تھا، جسے دیکھ کر پتھروں کے دل پانی ہو جاتے تھے۔ اس ہجوم میں وہ راجپوت بھی شامل تھے، جو حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے قتل کی منصوبہ بندی کرتے کرتے فرار ہوگئے تھے، مگر اب ان کے لئے تمام راہیں مسدود ہو چکی تھیں۔ مجبوراً انہوں نے حضرت خواجہؒ کے قدموں پر اپنے سر رکھ دیئے اور ایک فقیر بے سرو سامان کا چہرہ دیکھ کر باپ دادا کے عقائد کی جمع کردہ تمام دولت لٹا دی۔
اجمیر کے ہزاروں باشندوں نے اپنی آنکھوں سے یہ عجیب منظر دیکھا کہ صدیوں کے بت پرست چند لمحوں میں ایک نادیدہ ہستی کی وحدانیت پر ایمان لے آئے تھے۔ اگرچہ اس وقت ایمان لانے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی تھی، لیکن دیکھنے والے دیکھ رہے تھے کہ کفر کی سنگی دیواریں چٹخنے لگی تھیں اور ان میں ایک ہلکا سا شگاف نظر آنے لگا تھا۔
پتھر کے پجاریوں کے لئے یہ بڑی لرزہ خیر خبر تھی۔ ہندوؤں کے لاکھوں معبود مل کر بھی ایک ان دیکھے خدا کے پرستار کو نہ روک سکے۔ پروہتوں کے چہروں پر نفرتوں کی سرخی ابھر آئی۔ برہمن غضب ناک ہو گئے اور دیوتاؤں کے نام لیوا پیچ و تاب کھانے لگے۔ ہر طرف ایک حشر برپا تھا۔ ہندو دھرم کے رکھوالے مندروں میں جمع ہوئے، نیا مذہب قبول کرنے والوں کو طلب کیا گیا۔
’’آخر تمہیں اس اجنبی کے پیغام میں کیا کشش محوس ہوئی؟‘‘…یہ خواجہ معین الدین چشتی کی طرف اشارہ تھا… ’’تم نے اس کے خدا کو دیکھا ہے؟… یہ برہما، یہ وشنو، یہ شنکر، تمہیں کوئی بھی نہ روک سکا۔ کیا تمہارے آباؤ اجداد دیوانے تھے؟‘‘۔
’’ہم کچھ نہیں جانتے‘‘۔ مسلمان ہونے والے راجپوتوں نے بیک زبان کہا۔ ’’ہمارے دل نے گواہی دی کہ وہ سچ بولتا ہے، بس ہم اپنے دل سے مجبور ہو گئے‘‘۔ یہ ایک مختصر سا جواب تھا، مگر برہمنوں کی منطقوں کے دفتروں پر بھاری تھا۔
پجاریوں نے ان سے مزید بحث نہیں کی۔ دنیا کے ہر جابرانہ نظام کی طرح نو مسلم راجپوتوں کو بھی پیشکش کی گئی کہ اگر وہ اپنے گمراہ کن اور باغیانہ خیالات سے باز آ جائیں تو ان پر سیم و زر کی بارش کی جا سکتی ہے، مگر وہ مکمل باغی تھے، اس لئے برہمنوںکی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ پھر ان سے کہا گیا کہ اگر وہ اپنے مذہب میں دوبارہ داخل نہیں ہوئے تو زندگی کی ساری رعایتیں چھین لی جائیں گی اور ان پر راجستھان کی زمین تنگ کر دی جائے گی… مگر باغی راجپوت ان دھمکیوں سے بھی متاثر نہیں ہوئے۔ بالآخر انہیں برادری سے خارج کر دیا گیا۔
کچھ عاقبت نا اندیشوں نے راجہ پرتھوی راج چوہان کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ باغیوں کی اس مختصر تعداد کو قتل کر کے ہمیشہ کے لئے اسلام کے خطرے سے نجات حاصل کر لی جائے۔ پرتھوی راج فطری طور پر ایک ذہین اور مدبر حکمراں تھا۔ اس نے مشیروں کی یہ تجویز قبول نہیں کی۔ اس علاقے میں راجپوت کسی نہ کسی عنوان سے ایک دوسرے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی آپس میں رشتہ داریاں تھیں۔ اگر باغی راجپوتوں کو قبول اسلام کے جرم پر تہہ تیغ کر دیا جاتا تو یہ ایک انتہائی سزا ہوتی، جس کے نتیجے میں قتل ہونے والوں کے رشتہ داروں پر برے اثرات مرتب ہوتے اور پھر اس طرح متحد راجپوتوں کی صف میں شگاف پڑ سکتا تھا۔ اس مصلحت کے پیش نظر پرتھوی راج نے باغیوں کے قتل سے گریز کیا اور ان پر معاشی پابندیاں عائد کر دیں۔
اب خدائے واحد کے نام لیوا اپنے معاشرے کے لئے اجنبی ہو کر حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کے قدموں میں آ پڑے تھے۔ جب کبھی انہیں اپنے گھروں کے آزاد ماحول کی یاد آتی تو وہ اداس ہو جاتے۔ حضرت خواجہؒ اپنے ہم مذہبوں کی یہ حالت دیکھ کر فرماتے۔
’’تم لوگوں کا یہ اضطراب محض عارضی ہے۔ جو خدا کی راہ میں گھر سے بے گھر ہوئے یا ستائے گئے، وہ عنقریب عظیم الشان فتح سے ہم کنار ہوں گے، ذلت آمیز شکست تمہارے دشمنوں کا مقدر بن چکی ہے۔ بس کچھ دنوں کی بات ہے، آسمان کا فیصلہ زمین پر نازل ہونے ہی والا ہے‘‘۔
حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ کی یہ اثر انگیز تقریر سن کر راجپوتوں کے بے قرار دل ٹھہر جاتے اور وہ خدائے لاشریک کا نام لے کر ایک ایسی لذت کا احساس کرنے لگتے جس سے وہ کل تک آشنا نہیں تھے۔
پرتھوی راج چوہان اور دیگر امرائے سلطنت کے سخت احکام کی بنیاد پر مسلمان ہو جانے والے راجپوتوں کے لئے معاشی زندگی کا راستہ تنگ کر دیا گیا تھا۔ حکومت اور برسراقتدار طبقے کا خیال تھا کہ باغی راجپوتوں کے ساتھ اچھوتوں جیسا سلوک کرنے کے بعد وہ ان لوگوں کو خوفزدہ کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے جو حضرت خواجہؒ کی کرامت سے بہت زیادہ متاثر نظر نہیں آ رہے تھے۔ مگر ایسا نہیں ہوا۔ جسموں پر پابندیاں لگیں تو دل پہلے سے زیادہ آزاد ہو گئے۔ زبانوں پر مہریں لگائی گئیں تو ذہن کچھ اور زیادہ سرکش ہو گئے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post