کلام پاک کی عجب تاثیر:
صحابہ کرامؓ کی ایک جماعت نے حضور اقدسؐ کے حکم سے حبشہ کو ہجرت کی، مشرکین نے وہاں شاہ حبشہ کے دربار تک اپنی باتیں پہنچائیں اور اسے اسلام کے بارے میں بدگمان کرنا چاہا۔ نجاشی شاہ حبشہ نے بہت سے پادریوں اور راہبوں کو اپنے دربار میں جمع کیا اور ان مسلمانوں کو جو وہاں ہجرت کر گئے تھے، بلا کر حضرت مسیحؑ کی نسبت ان کا عقیدہ دریافت کیا۔
اس پر حضرت جعفر بن ابی طالبؓ نے ’’سورۃ مریم‘‘ کی تلاوت کردی۔ بادشاہ، قسیس اور سب راہب درویش سن کر بہت روئے۔ قرآن کریم نے ان پر ایک عجیب حال پیدا کر دیا۔ بادشاہ نے اقرار کیا کہ یہ واقعہ خدا کا کلام ہے اور مسلمان ہو گیا اور کہا کہ بے شک حضور اکرمؐ نبی برحق ہیں، جن کی حضرت مسیحؑ نے خبر دی تھی۔ پھر حضور اقدسؐ نے بھی اس کے ایمان کی یہاں تک شہادت دی کہ جب وہ حبشہ میں فوت ہوا تو آپؐ نے مدینہ منورہ میں اس کی نماز جنازہ ادا کی۔
بے اختیار گریہ:
ہجرت کے کئی سال بعد ایک وفد جو ستّر (70) آدمیوں پر مشتمل تھا، حضور اقدسؐ کی خدمت میں مدینہ میں حاضر ہوا۔
یہ لوگ نجاشی کے بھیجے ہوئے تھے۔ حضور اکرمؐ نے ’’سورئہ یٰسین‘‘ ان کے سامنے پڑھی۔ وہ کلام الٰہی سن کے بے اختیار رو پڑے اور وقف گریہ و بکا ہو گئے۔ آنکھوں سے آنسو اور زبان پر ’’ربنا امنا‘‘ (اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے) کے الفاظ جاری تھے۔ ستر کے ستر مسلمان ہوگئے۔ ساتویں پارے کی ابتدائی آیات انہی لوگوں کے حق میں نازل ہوئیں:
ترجمہ: ’’اور جب سنتے ہیں جو اترا رسول پر تو دیکھے گا انہیں کہ ان کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے، اس وجہ سے کہ انہوں نے حق پہچان لیا۔‘‘ (سورۃ المائدۃ: 83)
جنات کی گواہی:
آنحضرتؐ کی بعثت سے پہلے جنوں کو کچھ آسمانی خبریں معلوم ہو جاتی تھیں۔ جب حضور اکرمؐ پر وحی آنی شروع ہوئی تو وہ سلسلہ تقریباً بند ہو گیا، جنات کو خیال ہوا کہ ضرور کوئی نیا واقعہ رونما ہوا ہے، جس کی وجہ سے آسمانی خبروں پر سخت پہرے بٹھلا دیئے گئے ہیں۔ اس جستجو میں جنات کے مختلف گروہ مشرق و مغرب میں پھیل گئے۔
ایک جماعت بطن نخلہ کی طرف سے گزری، وہاں حضور پرنورؐ اپنے چند اصحابؓ کے ساتھ نماز فجر ادا کر رہے تھے۔ قرآن کی آواز ان جنات نے سنی اور وہ ان کو بہت عجیب مؤثر اور دلکش معلوم ہوئی، اس کی عظمت اور ہیبت ان کے دلوں پر چھا گئی اور وہ قرآن کی آواز پر فریفتہ ہو کر اسی وقت ایمان لے آئے اور اپنی قوم سے جا کر یہ سارا ماجرا بیان کیا:
ترجمہ: ’’ہم نے سنا ہے عجیب کلام جو نیک راہ سمجھاتا ہے، سو ہم تو اس پر ایمان لے آئے ہیں۔‘‘ (سورۃ الجن: 1.4)
قرآن کریم کی عجیب قوت تاثیر، شیریں بیانی اور حسن اسلوب نے ان کے لئے اسی وقت ہدایت کی راہیں کھول دیں۔ آئے تھے تجسس کے لئے، مگر حق تعالیٰ نے ایمان سے مالا مال کردیا۔ کس کی تاثیر تھی؟ قرآن کریم کی۔
عجیب اثر:
ملا قوشجیؒ ’’ماوراء النہر‘‘ کے ایک بہت بڑے عالم تھے، ایک دفعہ روم گئے اور وہاں کے ایک یہودی عالم سے صداقت اسلام پر گفتگو کی۔ ایک مہینے کے قریب ہر دو میںگفتگو جاری رہی، مگر وہ یہودی قائل نہ ہوا۔ ایک دفعہ وہ یہودی گفتگو کے لئے ملاجی کے پاس آجا رہا تھا۔ صبح کا وقت تھا اور ملاجی قرآن پڑھ رہے تھے، انہیں یہودی کے آنے کی کوئی خبر نہ تھی۔ وہ یہودی ٹھہر گیا اور بڑی توجہ سے قرآن سنتا رہا، اس کے بعد وہ ملا جی کے پاس آیا اور کہنے لگا: مجھے مسلمان بنا لو۔
ملاجیؒ نے تعجب سے پوچھا کہ میری ایک ماہ کی گفتگو تو تم پر اثر نہ کرسکی، اب فوراً کون سی چیز ہے جس نے تجھے متاثر کردیا ہے؟ اس یہودی نے جواب دیا کہ میں نے عمر بھر تجھ سا کوئی بد آواز نہیں دیکھا، مگر اس کے باوجود آج صبح جب تم قرآن پڑھ رہے تھے، میں چپکے سے اسے سن رہا تھا، تو اس نے میرے دل پر ایک عجیب اثر کیا۔ مجھے یقین آگیا کہ یہ کلام الٰہی ہے اور میں مسلمان ہو گیا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post