معارف و مسائل
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میں سے اصل رہبانیت اختیار کرنے والے جنہوں نے رہبانیت کے لوازم کی رعایت کی اور مصائب پر صبر کیا، وہ بھی نجات یافتہ لوگوں میں سے ہیں۔
آیت مذکورہ کی اس تفسیر کا حاصل یہ ہوا کہ جس طرح کی رہبانیت ابتداً اختیار کرنے والوں نے اختیار کی تھی، وہ اپنی ذات سے مذموم اور بری چیز نہ تھی، البتہ وہ کوئی حکم شرعی بھی نہیں تھا، ان لوگوں نے اپنی مرضی و خوشی سے اس کو اپنے اوپر لازم کرلیا تھا، برائی اور مذمت کا پہلو یہاں سے شروع ہوا کہ اس التزام کے بعد بعض لوگوں نے اس کو نبھایا نہیں اور چونکہ تعداد ایسے ہی لوگوں کی زیادہ ہو گئی تھی، اس لئے للاکثر حکم الکل، یعنی اکثریت کے عمل کو کل کی طرف منسوب کر دینا عرف عام ہے، اس قاعدہ کے موافق قرآن نے عام بنی اسرائیل کی طرف یہ منسوب کیا کہ انہوں نے جس رہبانیت کو اپنے اوپر لازم کرلیا تھا، اس کو نبھایا نہیں اور اس کی شرائط کی رعایت نہیں کی۔
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس رہبانیت کے متعلق جو قرآن نے فرمایا ابتدعوھا یعنی اس کو انہوں نے ایجاد کرلیا، اس لفظ ابتداع جو بدعت سے مشتق ہے، وہ اس جگہ اپنے لغوی معنی یعنی اختراع و ایجاد کے لئے بولا گیا ہے، شریعت کی اصطلاحی بدعت مراد نہیں ہے، جس کے بارے میں حدیث میں ارشاد ہے کل بدعۃ ضلالۃ ’’یعنی ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post