ان گلیوں اور گھروں کی یادیں (حصہ اول)

0

ہم ملاکا کے علاقے چائنا ٹاؤن کی مشہور گلی، جونکراسٹریٹ سے گزر کر ڈچ دور کی سُرخ عمارتوں کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں گورنر ہاؤس کے سامنے ایک ملباری چنڈول بیچ رہا تھا، میرے میزبان ڈاکٹر عطا محمد تالپور نے کہا:
’سائیں! گرمی ہے، گولا گنڈا کھا کر بچپن کی یاد تازہ کی جائے؟‘‘
میں نے اثبات میں جواب دیا۔ چنڈول دراصل گولاگنڈا ہی ہے، جس میں برف کے باریک ذرّات میں شربت وغیرہ شامل ہوتا ہے۔ خاص طور پر اس میں مقامی شربت ملاکا گولا ہوتا ہے۔ بعض ٹھیلے والے اس مکسچر میں ایک دو اقسام کے اُبلے ہوئے چنے (کنچانگ) بھی ڈالتے ہیں اور اسے آئرباتو چمپور (ABC) کہتے ہیں۔ قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کرتا چلوں کہ ملائیشیا، خاص طور پر اس شہر ملاکا میں گجراتی اور ملباری خاص تعداد میں آباد ہیں۔ گجراتی دکانداری کرتے ہیں، میں اس سے پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ ملاکا میں گجراتی ( انڈین گجرات کے باشندے) انگریزوں، پرتگالیوں اور ڈچوں کی آمد سے بھی بہت پہلے یہاں آئے تھے۔ باقی ملباری اور گوا کی اطراف کے باشندے یقیناً پرتگالیوں کے حملے اور قبضے کے دوران یہاں وارد ہوئے ہوں گے۔
اب تو گجراتی، سندھی، ہندوؤں حتیٰ کہ نچلے درجے کے کام اور محنت مزدوری کرنے والے سکھوں، تاملوں، ملباریوں کی اولاد تعلیم حاصل کر کے ملائیشیا کے ہرادارے میں موجود ہے۔ یہاں تک کہ فوج، پولیس، جوڈیشری، اور تعلیمی اداروں میں بھی آگئے ہیں۔ حالانکہ ساٹھ کی دہائی میں، جب میں اپنے جہاز پر یہاں آتا تھا تو اس زمانے میں انڈین لوگوں کے کام مقرر تھے۔ ان کی اولاد بھی وہی کام کرتی تھی، تعلیم جیسے جھنجھٹ میں پڑتے ہی نہیں تھے۔ ملائیشیا کے ریلوے ڈپارٹمنٹ KTM (کیریٹا آپی تناح ملایو) میں اسٹیشن ماسٹر اور گارڈ سے لے کر قلی تک مدراسی تھے۔ ربڑ اور پام آئل کی کاشت میں محنت مزدوری والا کام تامل کرتے تھے۔ ربڑ اور تیل کا کاروبار چینیوں کے ہاتھ میں تھا۔ جاگیروں کے مالک بھی یہی چینی، انگریز اور کچھ ملئی تھے۔ بینکوں، ہوٹلوں اور دکانوں کی چوکیداری سکھ اور پٹھان کرتے تھے۔ شہروں اور قصبوں میں دکانیں گجراتی اور سندھی ہندو چلاتے تھے۔
ملاکا میں جگہ جگہ ملباری یہ گولاگنڈا بیچتے نظر آتے تھے۔ اسّی کی دہائی میں بھی ہمارے لیے اس قسم کے گولے گنڈے، قلفی اور ملک شیک جیسی چیزیں خرید کر سڑک کے کنارے کھانا پینا ایک عام سی بات تھی۔ پھر اسّی کی دہائی کے آخری برسوں میں ملاکا میں میکڈونلڈ اور کینٹکی جیسے ریسٹورنٹ کھلنے لگے۔ ان میں بیٹھ کر آئس کریم اور ملک شیک جیسی چیزیں کھانا پینا فیشن بن گیا۔ لیکن آج بھی کہیں کسی کو چنڈول یا (ABC) بیجتے ہوئے دیکھ کر خود بخود قدم رک جاتے ہیں اور کھانے کو دل چاہتا ہے۔
جب تک ملباری ہمارے لیے چنڈول تیار کرتا، میں سامنے گورنر ہاؤس کی پرانی طرز کی عمارت کو دیکھ کر کچھ پرانی یادوں میں گم ہوگیا۔ اس اسے قبل جب بھی میرا یہاں سے گزر ہوتا تو میں ملاکا کے گورنر کے ساتھ کچھ دیر ضرور بیٹھتا تھا، پھر گفتگو کے دوران کبھی چائے اور کبھی کھانا کھا کر رخصت ہوتا تھا۔ ملاکا میں رہائش کے دوران یہاں کے گورنر تُن سیّد احمد الحاج بن سیّد محمود شہاب الدین تھے۔ تُن (Tun) ان کا خطاب تھا، جو ملک کے بادشاہ کی جانب سے ملتا ہے، جس طرح انگریز بادشاہ یا ملکہ وکٹوریا کی طرف سے ہمارے لوگوں کو خان بہادر اور رائے بہادر جیسے القابات ملے ہیں۔ ہمارے ہاں حاجی، الحاج وغیرہ نام سے پہلے لگایا جاتا ہے جبکہ ملئی لوگ نام کے آخر میں لگاتے ہیں۔
ملاکا چھوڑنے کے بعد بھی میں دو تین مرتبہ یہاں آیا تھا تو یہاں کے گورنر احمد بن محمود شہاب الدین تھے، لیکن اس مرتبہ وہ اپنے آفس میں تو کیا اس دنیا میں بھی نہیں رہے، وہ دو سال قبل فوت ہوچکے ہیں۔ ملائیشیا میں اب سیکورٹی کے سبب اعلیٰ افسروں، وزیروں، گورنروں سے ملنے میں کچھ دقت پیش آتی ہے، جبکہ اسّی کے عشرے میں کسی اہم عہدے دار سے ملنا بالکل مشکل نہ تھا۔ گورنر صاحب کے ساتھ میرے نہایت قریبی اور دوستانہ تعلقات تھے، نہ صرف میں بلکہ وطن سے آنے والے مہمانوں کو بھی گورنر صاحب سے ملوا تا تھا۔ ایک تو میں ان کی ریاست کے اہم نیول ادارے میں تدریس کے فرائض انجام دیتا تھا اور دوسرے وہ میری لکھنے پڑھنے کی عادت کی وجہ سے میرا خاص خیال رکھتے تھے۔ یہی سبب تھا کہ میرے آفس میں کام کرنے والے کچھ ساتھیوں کو حسد ہونے لگا کہ گورنر صاحب آخر مجھے اتنی اہمیت کیوں دیتے ہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ اس سارے معاملے میں میرا کوئی ہاتھ نہ تھا۔ گورنر صاحب خود بھی خوش اخلاق اور ملنسار طبیعت کے مالک تھے اور قدرت کی طرف سے میرے حق میں کچھ ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ ہم گہرے دوست بن گئے۔ یہ سب کچھ کیسے ہوا، میں اس سلسلے میں اپنے آفس کے ساتھیوں کو نہیں بتاتا تھا، لیکن یہاں قارئین کی دلچسپی کے لیے تحریر کر رہا ہوں۔
میں جہاز چلانے کی نوکری کو خیرباد یعنی سمندر کو گڈبائی کہہ کر ملاکا میں کنارے کی جاب پر آیا تو اتفاق سے وہ جہاز، جس پر میں نہ صرف چیف انجینئر رہا، بلکہ وہ میری نگرانی میں تیار ہوا تھا، طویل اور تفصیلی مرمت کے لیے سنگاپور پہنچا۔ انہی ایام میں جہاز پر پاکستان ڈے یا شاید عید کا جشن منانے کا پروگرام ترتیب دیا گیا۔ مجھے اپنی کمپنی کی جانب سے ہدایات موصول ہوئیں کہ میں اس دن جہاز پر موجود رہوں اور آنے والے مہمانوں کا خیال رکھوں۔ ملاکا سے سنگاپور بائی روڈ تین گھنٹے کا سفر ہے۔ میں اپنی کار کے ذریعے سنگاپور پہنچا، جہاز پر ڈنر کا اہتمام کیا گیا تھا، جس میں مقامی اہم بزنس مین اور ملک کے اعلیٰ افسران کو مدعو کیا گیا تھا۔ مجھ سے دریافت کیا گیا تو میں نے سنگاپور میں موجود ملائیشیا اور کچھ دوسرے مسلم ممالک کے سفیروں کو دعوت دینے کا مشورہ دیا۔ ان دنوں میں سیّد احمد شہاب الدین سنگاپور میں سفیر تھے، ان کی آمد پر میں پورا وقت ان کے ساتھ رہا۔ ہمارا وہ جہاز خاص ماڈرن اور آٹومیٹک تھا۔ اس لحاظ سے ملائیشیا ہم سے کافی پیچھے تھا، میں سفیر صاحب کو اس جہاز چلانے اور سمندر میں پیش آنے والے عمومی مسائل کے بارے میں بتاتا رہا، وہ میری باتیں غور اور نہایت دلچسپی سے سنتے رہے۔
رخصت ہونے کے وقت سفیر صاحب سیّد احمد شہاب الدین نے تکلفاً یا واقعی اپنائیت سے اپنا کارڈ دیتے ہوئے کہا تھا، آپ سنگاپور آتے رہتے ہوں گے، دوبارہ آنا ہو تو مجھ سے ضرور ملئے گا۔
سچی بات یہ ہے کہ ملاکا پہنچ کر میں نہ صرف ڈنر میں ملنے والے لوگوں کے نام بھول گیا، بلکہ کارڈ بھی اِدھر اُدھر ہوگئے۔ ویسے بھی سنگاپور وہ شہر تھا (خاص طور پر اُن دنوں میں) جہاں میرے کئی جہازراں دوست Shorejob میں تھے اور ان سے ہمیں ملنے کا وقت نہیں ملتا تھا، شاپنگ اور گھومنے پھرنے ہی سے فرصت نہ تھی۔ پھر سال یا ڈیڑھ سال کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ تُن سیّد احمد شہاب الدین کو ملاکا کا گورنر مقرر کیا گیا، میں نے اخبار میں یہ خبر پڑھی تھی، لیکن ذہن میں یہ بالکل نہ آیا کہ یہ وہی سفیر ہیں، جن سے سنگاپور میں جہاز پر ملاقات ہوئی تھی۔ میرے خیال میں یہ ان کی بڑائی ہے کہ انہیں یاد رہا کہ میں ملاکا میں رہتا ہوں اور یہ بھی ان کی عظمت ہے کہ ایک اعلیٰ عہدے پر ہوتے ہوئے انہوں نے مجھے یاد رکھا۔ ورنہ میری حیثیت ہی کیا تھی؟ ایک غیر ملکی Expatriate اور کم تر ملازمت والا شخص!
جب میرے باس نے مجھے بتایا کہ اگلے دن مجھے گورنر صاحب کے پاس جانا ہے اور وہ مجھ سے ملنا چاہتے ہیں تو ان کے ساتھ مجھے بھی حیرت ہوئی تھی۔ اس وقت میرے خواب وخیال میں بھی نہ تھا کہ یہ گورنر صاحب وہی سفیر ہیں جن سے سنگاپور میں ملاقات ہوئی تھی۔ بہرحال یہ میری خوش نصیبی کہلائے گی کہ ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، سینئر سیاستدان اور سرکاری اعلیٰ افسر کے ساتھ میری دوستی ہوگئی، جو ان کی وفات تک قائم رہی۔ گورنر سیّد احمد 4 مئی 1925ء میں ملائیشیا کی شمالی ریاست کیداح کے شہر کُلیم میں پیدا ہوئے، یعنی وہ مجھ سے بیس سال بڑے تھے۔ وہ ملائیشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد سے دو ماہ بڑے تھے۔ مہاتیر کی تاریخ پیدائش 10 جولائی 1925ء ہے، وہ بتاتے تھے کہ مہاتیر ان کے کزن ہیں۔ مہاتیر کے والد محمد الور اسٹار میں اسکول ٹیچر تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ ان کے بچے، بھتیجے، بھانجے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ ان کے اس بھانجے سیّد احمد شہاب الدین نے اپنے گاؤں کُلیم کے ملئی اسکول سے 1932ء سے 1935ء تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے ماموں زاد بھائی مہاتیر کے ساتھ الور اسٹار کے ’’سلطان عبد الحمید کالج‘‘ میں داخلہ لیا اور 1947ء میں سینئر کیمبرج امتحان پاس کیا۔ انہوں نے مزید تعلیم انڈیا سے حاصل کی، کیونکہ وہ کبھی کبھار میرے ساتھ وہاں کی باتیں کرتے تھے اور ساؤتھ انڈین کھانے اِڈلی، ڈوسا وغیرہ کھاتے وقت ماضی کے دن یاد کرتے تھے۔ ویسے بھی ان کے نانا (مہاتیر کے دادا) انڈین تھے، وہ گجرات سے ہجرت کر کے ملایا آئے تھے۔ انہوں نے یہاں ملئی خاتون کے ساتھ شادی کی، یہ بات دیگر ہے کہ ملائیشیا میں رہنے والے کئی انڈین مسلمان، جنہوں نے ملئی عورتوں سے شادی کر کے خود کو ملئی ماحول میں ڈھال لیا، وہ اور ان کی اولاد اپنی شناخت ’’انڈین‘‘ ظاہر کرنے سے کتراتے ہیں۔ درحقیقت وقت کے ساتھ ساتھ یہ تمام لوگ ملئی کہلائیں گے، کیونکہ یہ سب ملئی زبان بولتے ہیں، ملئی لباس پہنتے ہیں، ملئی کھانے کھاتے ہیں اور خود کو ملئی تہذیب و ثقافت کے ساتھ وابستہ رکھتے ہیں۔ وہ مقامی لوگوں کی طرح اس دھرتی اور یہاں کے عوام کی بہتری کا سوچتے ہیں۔
مہاتیر کے دادا گو کہ گجراتی انڈین تھے، لیکن مہاتیر کی اس ملک کے لیے انجام دی جانے والی خدمات سے کون انکار کرسکتا ہے۔ مہاتیر کے والد محمد نے بھی ایک ملئی خاتون سے شادی کی اور مہاتیر کی بیوی بھی ان کی کلاس میٹ ڈاکٹر سیتی ہاسما بنیں۔ یعنی مہاتیر ہندی یا گجراتی کا ایک لفظ بھی نہیں جانتے تھے، لیکن یہاں کے مقامی لوگ، خاص طور پر وہ جو ان کے سیاسی مخالف ہیں، وہ آج بھی ان پر خفا ہوتے ہیں تو ان کی کوئی کمزوری نہ پاکر مجبوراً اپنے غصّے کا اظہار یہ کہہ کر کرتے ہیں کہ مہاتیر انڈین ہیں۔
مزید غصّے کا اظہار کرنا مقصود ہوتو سیاسی مخالفین انہیں ماما(Mamak) کی اولاد کہتے ہیں۔ یہ لفظ ملائیشیا میں ان انڈین لوگوں کے لیے استعمال کیا جاتا ہے جو چائے بناتے اور بیجتے ہیں۔
آئندہ چل کر سید احمد سیاست میں آئے۔ وہ 1954ء سے 1967ء تک سیاسی پارٹی اُمنو(Umno) کے ریاستی سیکریٹری اور اس کے بعد 1978ء تک چیئرمین رہے۔ وہ 1967ء سے 1978ء تک کیداح ریاست کے وزیر اعلیٰ (مینستری بیسار) بھی رہے۔ ملئی زبان میں مینستری کا مطلب ’’ وزیر‘‘ اور بیسار کے معنی ’’اعلیٰ‘‘ کے ہیں۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More