آبادکاری

0

جنگلی کبوتروں کے دو جوڑے میرے ہمسائے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انہوں نے برابر والے گھر خریدے ہوں یا کرائے پر لئے ہوں، بس میرے باتھ روم کی دونوں کھڑکیوں کی چوکھٹ پر اپنا گھر بسائے بیٹھے ہیں۔ بڑا عجیب سا لگتا ہے کہ آپ باتھ روم جائیں اور زنانہ یا مردانہ کبوتر کو اپنی طرف حیرت اور افسوس سے دیکھتا ہوا پائیں۔ بندہ خود سے شرمندہ ہو جاتا ہے۔ یہ تو شکر ہے کہ ان کے گھر اور ہمارے باتھ روم کے درمیان باریک جالی کا ایک پٹ حائل ہے۔ مچھر روک جالی کے آر پار دیکھنا اتنا ہی آسان ہے جتنا مشکل۔ اس لئے ہم دونوں اپنے اپنے طور پر یہ فرض کر لیتے ہیں کہ میں اسے دیکھ رہا ہوں، وہ مجھے نہیں دیکھ رہا۔ یوں کبوتروں کی اور ہماری شرم کا پردہ رہ جاتا ہے۔ مگر ایسا بھی نہیں ہے کہ وہ لاج کے مارے ہیں۔ یا باتھ روم میں کسی آدم زاد کی موجودگی محسوس کرکے اپنی پرائیویسی سے دستبردار ہو جائیں اور اپنی نجی حرکات سے باز آجائیں۔ وہ انسانوں کی موجودگی کی پروا کئے بغیر اپنے افعال میں مصروف رہتے ہیں۔ جس کا نتیجہ ہر چند ہفتے بعد چھوٹے چھوٹے سفید انڈوں کی صورت میں نظر آتا ہے۔ جنگلی کبوتروں کی نسل بڑھانے کی رفتار خرگوشوں سے کچھ کم ہی ہے اور مزے کی بات ہے کہ اس پر وہ کوئی شرم بھی محسوس نہیں کرتے۔ نہ ان کے ہاں خاندانی منصوبہ بندی کا کوئی محکمہ ہے۔ انہیں رزق کی کمی کا بھی کوئی خدشہ نہیں۔ ہم باتھ روم جائیں تو در و دیوار غٹرغوں کے مختلف صوتی آہنگ سے گونج رہا ہوتا ہے۔ ہر آواز کا خاص مطلب ہے۔ گویا ہر کبوتر کو آپ ایک ہی لاٹھی سے نہیں ہانک سکتے۔ ہمارا بچپن ایسے گھروں میں گزرا ہے، جہاں جنگلی کبوتروں کے بے شمار گھونسلے تھے۔ اس لئےان کی زبان سیکھنے میں زیادہ دقت نہیں ہوتی۔ ویسے بھی بچپن میں آپ چیزیں زیادہ جلدی سیکھ لیتے ہیں۔ جنگلی کبوتر تو اپنی باڈی لینگویج سے ہی عزائم کا اظہار کر دیتے ہیں۔ خاص طور پر جب نسل میں اضافے کا طویل عمل شروع کرنے کا ارادہ ہو۔ لیکن ان کی زبان بھی بہت سے راز اگلتی رہتی ہے۔ یہ راز ان کے اپنے بھی ہوتے ہیں اور انسانوں کے بھی۔ جن کے گھروں میں ان کا بسیرا رہ چکا ہوتا ہے یا ان کے عزیزوں کا ہوتا ہے۔ کبوتروں کی باہم گفتگو عموماً رات کو ہوتی ہے۔ اڑنے چگنے سے فارغ ہوکر جب میاں بیوی آرام کرنے بیٹھتے ہیں، تب بیوی عموماً انڈوں پر بیٹھ جاتی ہے اور شوہر سوکھی گھاس کے بستر پر پائوں پسار کے دیوار سے ٹیک لگا لیتا ہے۔ گزشتہ رات ہم آدھی نیند میں ڈوبے چھوٹے کام کے لئے اٹھے اور لڑکھڑاتے قدموں سے باتھ روم میں داخل ہوئے تو ہلکی ہلکی غٹرغوں سے باتھ روم جاگ رہا تھا۔ کچھ تو نیند کا خمار اور کچھ روزمرہ کا معمول سمجھ کر ہم نے ان کی گفتگو نظر انداز کر دی۔ لیکن اچانک کچھ جملے کانوں سے ایسے ٹکرائے کہ نیند کے باوجود ہم نے دیوار سے کان لگا دیئے۔ پتہ چلا کہ دونوں اپنے بیٹے کے رشتے کی بات کر رہے ہیں، جو نام خدا اسی مہینے جوان ہوا ہے اور دانے دنکے کے ساتھ اِدھر اُدھر کی کبوتریوں پر بھی منہ مارتا پھر رہا ہے۔ شکایتیں بڑھنے پر کبوتری نے شوہر کے مشورے سے بہن کی بیٹی کا رشتہ مانگ لیا۔ جو جوانی کی دہلیز پر کھڑی تھی۔ بہن نے ہاں تو کر دی، لیکن کبوتروں کے رواج کے مطابق حق مہر میں دس ویران گھر طلب کر لئے۔ جنگلی کبوتروں میں رواج ہے کہ لڑکے کو حق مہر کے طور پر دس گھر دینے پڑتے ہیں۔ اگر جنگل ہے تو دس درخت، پہاڑ ہے تو دس غار اور شہر ہے تو دس گھر۔ شرط یہ ہے کہ گھر ویران ہوں۔ کیونکہ آباد گھروں میں گھونسلہ زیادہ دیر رہ نہیں پاتا۔ گھر والے یا والیاں انڈے بچے باہر پھینک کر جگہ صاف کر دیتے ہیں۔ بہت مجبوری اور غریبی کا نکاح ہو تو آباد گھر بھی چل جاتے ہیں۔ اب چونکہ نوجوان کبوتر کا رشتہ جس کبوتری کے لئے گیا تھا، وہ کھاتے پیتے گھرانے کی تھی۔ ماں، باپ اپنی بیٹی کو ایسی جگہ نہیں بھیج سکتے تھے، جہاں ہر وقت اٹھائو چولہے کی صدا لگنے کا خطرہ ہو۔ اب مادر کبوتری شکایت کر رہی تھی کہ ہم اس آباد معمورے میں دس ویران گھر کہاں سے لائیں؟ بہتر ہے رشتہ کہیں اور کر دیا جائے۔ ابا کبوتر کچھ دیر خاموشی سے بک بک سنتا رہا، پھر بات طویل پڑ گئی تو ڈپٹ کر بیوی کو خاموش رہنے کا حکم دیا اور تحکمانہ غٹرغوں میں بولا: ’’انسانوں کی عدالت نے کراچی کی پانچ سو عمارتیں اور ہزاروں شادی ہال گرانے کا حکم دیا ہے، اس پر عمل ہو گیا تو میں حق مہر کے طور پر دس کیا، بیس ویران عمارتیں دے دوں گا۔ تم چنتا مت کرو اور بہن کو ہاں بول دو‘‘۔ یہ سن کر خوف کے مارے میری نیند اڑ گئی، پھر جنگلی کبوتروں، چیلوں اور کوؤں کی آباد کاری کے وسیع امکانات پر غور کیا تو کپکپی کچھ کم ہو گئی۔ آخر ایک کا نقصان، دوسرے کا فائدہ جو ہوا۔ انسان نہ سہی، جنگلی کبوتر ہی سہی، کوئی تو یہ شہر آباد کرے۔ ٭

٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More