’’مجھے ہے حکم اذاں‘‘

0

جس طرح ایک پختہ اور پائیدار تعمیر اچھے میٹریل، مضبوط سنگ و خشت، مناسب مقدار میں لوہے کی شمولیت اور معیاری سیمنٹ کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ایک اچھا انجینئر بنیاد سے آخری سرے تک سیدھا اور متوازن بالترتیب صحیح طریقے سے کھڑا کرنے میں کامیاب ہو جائے، وہی عمارت مضبوط، پائیدار اور دیرپا کہلاتی ہے۔ بنانے والا زندہ رہے یا نہ رہے، لیکن عمارت قائم رہتی ہے، اسی پائیداری کے سبب بنانے والے کا نام بھی زندہ رہتا ہے۔
خشت اول چوں نہد معمار کج
تا ثریا می رود دیوار کج
اس طرح ایک اچھے اخبار کے لئے اچھے میٹریل، بہترین اور دلچسپی سے بھرپور مواد، صحیح اور معیاری خبروں کا انتخاب، خوبصورت اور متوازن ترتیب و پیشکش کامیابی کی ضمانت سمجھا جاتا ہے۔ خبر اور لفظ کی حرمت کا خیال نہ رکھا جائے تو قارئین کے لئے وہ ردی کے کاغذ سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا۔ جس میں صرف پکوڑے ہی بیچے جا سکتے ہیں۔ اغلاط سے پاک، جملوں کے حسن اور الفاظ کا انتخاب اسے ایک مضبوط دیوار کا روپ عطا کرتے ہیں، جس میں اخبار کی پائیداری کا راز مضمر ہوتا ہے۔ اخبار کا ذائقہ پڑھنے والے کے دل کو بھا جائے تو پھر وہ کسی اور جریدے کی طرف دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا، یہی کسی بھی اخبار کی کامیابی کا راز سمجھا جاتا ہے۔
آج ہم روزنامہ ’’امت‘‘ کی بائیسویں سالگرہ منا رہے ہیں۔ روزنامہ ’’امت‘‘ کے اجراء کے وقت بھی یہ تمام باتیں پیش نظر تھیں، اس تمام مرحلے میں ان کا خیال رکھا گیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قارئین ’’امت‘‘ اخبار سے جڑے ہوئے ہیں۔ آج تک اس تعلق میں دراڑ نہیں آئی، بلکہ یہ تعلق پہلے سے زیادہ مضبوط ہوا ہے۔ روزنامہ ’’امت‘‘ نے اس تعلق کو مستحکم بنیادوں پر قائم رکھنے کے لئے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کیا ہے اور کرتا رہے گا۔
صاحبان اقتدار کے ناروا سلوک کے باوجود ’’امت‘‘ کا اپنے بزرگوں کا نعرہ ’’مجھے ہے حکم اذاں‘‘ بلند رکھے ہوئے ہے۔ اشتہاروں کی بندش، وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور خیبر پختون حکومت کی مقرر
کردہ اشتہاری ایجنسیوں کی روزنامہ ’’امت‘‘کے کروڑوں کے واجبات کی عدم ادائیگی اور اخباری کارکنوں کی مالی زبوں حالی عوام کے سامنے ہے۔ کارکنوں کی تنخواہوں کے تعطل سے سینکڑوں خاندان سخت مشکلات کا شکار ہیں۔ بیماروں کو دوا نہیں مل رہی، بچے دودھ اور غذائی قلت کا شکار ہیں۔
کارکن بے بسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے جیسے ہم کسی قحط زدہ علاقے کے باسی ہیں، اس قہرآلود وقت میں بھی اخبار ایک دن بھی تعطل کا شکار نہیں ہوا۔ ہم پورے عزم کے ساتھ قارئین کو خبریں پہنچانے اور اخبار کی فراہمی میں مستعد ہیں۔
ہماری دیانتداری ہی اخبار کی اصل روح ہے۔ روح پاکیزہ ہو تو باطل اس پر اثر انداز نہیں ہو سکتا۔ لاکھ دشمنیاں آڑے آئیں، کرپٹ لوگ لاکھ رکاوٹیں کھڑی کریں، لاکھ طرح سے انتظامیہ اور کارکنوں کو پریشان کرنے کے حربے اختیار کئے جائیں، سچے اخبار کا راستہ گم نہیں کر سکتے، بلکہ اس کی خود اعتمادی میں اضافہ کرتے ہیں۔ علامہ اقبالؒ نے پرعزم انسانوں کو راستہ دکھانے کیلئے کہا تھا۔ ؎
ہزار چشمہ ترے سنگ راہ سے پھوٹے
خودی میں ڈوب کر ضربِ کلیم پیدا کر
’’امت‘‘ چاہتا تو ایک بھاری بھرکم پچاس ساٹھ صفحات پر مشتمل بڑے اخباروں کی تقلید میں نکال کر قارئین سے بھاری رقم بٹور سکتا تھا، لیکن اس دیانتدار جریدے نے ردی بیچنے کے بجائے معیاری مواد عوام کی خدمت میں پیش کیا، جس سے عوامی ذہنی معیار کو مہمیز ملی اور شعور بلند ہوا۔
’’امت‘‘ اخبار خریدنے والے کی معمولی سی رقم بھی ضائع ہونے سے بچ گئی۔ فضول چیزیں پڑھنے سے ان کا وقت ضائع نہیں ہوا، بلکہ ہمارے ذہین قارئین نے اپنے وقت کا استعمال بہتر اور سودمند کاموں کے لئے کیا۔
ایک بیرونی دورے کے دوران میری کئی غیر ملکیوں سے بات چیت ہوئی کہ وہ اپنے وقت کن کاموں میں صرف کرتے ہیں۔ ان میں زیادہ تر افراد نے اپنی دفتری مصروفیات کے علاوہ صحت اور مطالعہ میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا۔
جب ان سے میں نے ٹی وی اور فلم دیکھنے کے بارے میں پوچھا تو حیرت انگیز طور پر بتایا کہ ٹی وی ہمارے گھر میں موجود تو ہے، لیکن اسے لگانے کی نوبت نہیں آتی۔ ہماری دلچسپی ان چیزوں سے ختم ہو چکی ہے۔ بعض نے تو 2 سال پہلے کسی فلم یا ڈرامے کا بتایا اور بعض نے کہا کہ جب سے مجھے جاب ملی، میں نے یہ فضول چیز دیکھی ہی نہیں۔ یہ لوگ ایسی چیزیں دیکھنے کے بجائے نت نئے کورسز کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، جس سے ان کی قابلیت میں اضافہ ہو۔
ہندوستان سے آئے ہوئے ایک مال باری (ملواری) نے بتایا کہ میں اس کمپنی میں ’’ٹی مین‘‘ کے طور پر آیا تھا۔ دفتری کام کے بعد میں نے کورسز کئے اور آج اس کمپنی میں منیجر کے عہدے پر کام کر رہا ہوں اور ہر ماہ ایک معقول رقم انڈیا میں اپنے بچوں کو بھیجتا ہوں۔
بات دوسری طرف نکل گئی۔ ’’امت‘‘ اپنے قارئین کو ملکی اور غیر ملکی صورت حال سے باخبر رکھتا ہے۔ ان آٹھ صفحوں میں اتنا میٹریل ہوتا ہے کہ ایک قاری کے لئے کافی سے زیادہ ہو جاتا ہے۔ خبروں کے علاوہ بہترین رپورٹس سے خبروں کا پس منظر پیش کیا جاتا ہے۔ کھیلوں سے دلچسپی رکھنے والوں کے لئے ملکی اور غیر ملکی خبروں کا ضروری خلاصہ پیش کیا جاتا ہے۔ نامور کالم نگاروں کی تحریروں سے آراستہ تنقیدی مضامین میں رہنمائی دی جاتی ہے۔
ایک اور صفحہ جو ہمارے قارئین میں بے حد مقبول ہے، دینی مسائل اور ان کے حل کے علاوہ سلف صالحین کے چھوٹے چھوٹے واقعات سے مزین کرکے اسلام کی اہمیت کو اجاگر کیا جاتا ہے، جس سے ہمارے پڑھنے والے اپنے علم میں اضافہ کرتے ہیں۔
ہم اخبار کی بہتری اور صحیح راستہ دکھانے میں کہاں تک جا سکتے ہیں، ہمارا ماضی اس کا بہترین گواہ ہے۔ کوئی رکاوٹ، کوئی سختی، کوئی حربہ ’’امت‘‘ کو آگے بڑھنے سے نہ روک سکا ہے اور نہ روک سکے گا۔ ہم آگے ہی آگے بڑھ رہے۔ آپ کا تعاون اور دعائیں شامل رہیں تو ہم اپنے شاندار ماضی کے تسلسل کے ساتھ یہ سفر جاری رکھیں گے۔ (ان شاء اللہ) اللہ ہمارا اور آپ کا حامی اور ناصر ہو۔ آمین!
(وما علینا الا البلاغ)

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More