تثلیث سے توحید تک

0

شرک کے اندھیرے دور ہوئے:
کفر قبولِ اسلام کی اس داستان کا تعلق اس زمانے سے ہے، جب شام میں ایک اسلام پسند جمہوری حکومت برسرِِ اقتدار تھی اور ملک آمریت کے شکنجے سے محفوظ تھا۔ اس زمانے میں حمص اور حماہ اسلامی تحریک کے مراکز کی حیثیت سے خاص شہرت اور عزت کے حامل تھے۔
’’محترمہ امل السایغ کا تعلق آرمینیا کے ایک ایسے عیسائی خاندان سے تھا، جو اپنے اصل وطن سے ترکِ مکانی کر کے پہلے ترکی کے ایک قلعہ ماردین میں رہائش پذیر ہوا اور پھر کچھ عرصے بعد شام کے ایک سرحدی قصبے الحساقہ میں آباد ہو گیا۔ محترمہ کا خاندان پیشے کے اعتبار سے سونے چاندی کے زیورات بنانے کا کام کرتا تھا۔
نو عمر امل السائغ غیر معمولی ذہین لڑکی تھی۔ تعلیمی قابلیت میں وہ اپنی ہم عمر لڑکیوں سے کہیں آگے تھی۔ چنانچہ دیگر نصابی کتابوں پر عبور حاصل کرنے کے علاوہ اس نے بیک وقت پانچ زبانوں یعنی عربی، ترکی، انگریزی، فرانسیسی اور کرد پر بھرپور دسترس حاصل کر لی اور جونہی اس نے اسکول کی تعلیم مکمل کی، اسے مقامی سرکاری اسپتال میں نرس کی ملازمت مل گئی اور وہ اپنی ذاتی قابلیت اور پیشہ ورانہ مہارت کی وجہ سے تھوڑے ہی عرصے میں چیف نرس بن گئی۔
اس کے ساتھ ہی امل السائغ مقامی سیاسی سر گرمیوں میں دلچسپی لینے لگی، اس کا خاندان آسودہ حال تھا۔ قصبے کی معاشرتی زندگی میں خاص حیثیت رکھتا تھا اور عام آرمینی عیسائیوں کی طرح اس کی سیاسی وابستگیاں قوم پرست سیاسی جماعت بعث پارٹی سے تھیں۔ اس سبب سے اس کی خاص پذیرائی ہوئی اور بہت جلد وہ پارٹی کے خفیہ سیل کی نگران بنالی گئی۔
کرنا خدا کا یہ ہوا کہ 1953ء میں حمص اور حماہ کی تحریک اسلامی نے الحساقہ کے تعلیمی اداروں میں تعلیمی اور دعوتی خدمات انجام دینے کے لیے اپنے کارکن اساتذہ کو بھجوایا۔ ان میں مرد بھی تھے اور خواتین بھی۔ قدرتی طور پر یہ لوگ بڑے ہی خوش اخلاق، پاکباز اور مزاج کے اعتبار سے گرم جوش مبلغ تھے۔ انہی میں مس عالیہ الجواد بھی تھیں، جو اخلاق، محبت اور گرم جوشی کی خوبیوں سے متصف تھیں اور مخاطب کو متاثر کرنے کا خاص سلیقہ رکھتی تھیں۔
اسے امل السائغ کی خوش بختی ہی کہنا چاہئے کہ ایک روز مس عالیہ الجواد اپنے تبلیغی اور دعوتی دورے پر اس اسپتال میں جا نکلیں، جہاں موصوفہ سرکاری فرائض انجام دیتی تھیں۔ یہ ملاقات بڑی ہی نتیجہ خیز رہی، عالیہ جواد نے اسلام کا تعارف اتنے عام فہم انداز میں اور جدید ترین حوالوں سے کرایا کہ امل السائغ متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکی۔ عالیہ نے رخصت ہوتے ہوئے اسے قرآنِ پاک کا ایک نسخہ تحفے میں پیش کیا۔
امل عالیہ کی خوش اخلاقی اور دل نشین گفتگو سے اتنی متاثر ہوئی تھی کہ اسپتال سے فارغ ہو کر اس نے گھر آتے ہی قرآنِ پاک کا مطالعہ شروع کردیا۔ ایک عیسائی کی حیثیت سے اس نے انجیل کا مطالعہ کر رکھا تھا، وہ عربی سے بھی بخوبی آگاہ تھی اور خدا نے اسے ذہانت بھی وافر عطا کی تھی۔ اس لیے قرآن پڑھتے ہوئے وہ حیرت اور مرعوبیت سے اس فرق کو محسوس کر رہی تھی جو قرآن اور موجودہ بائبل میں پایا جاتا ہے۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ قرآن کتنے فطری انداز میں انسان کی عملی رہنمائی کرتا ہے، اس کی عقل اور شعور کو براہِ راست اپیل کرتا ہے، جبکہ بائبل انسان کی عقل اور ذہانت سے بہت دور کترا کر نکل جاتی ہے اور کتنے ہی تضادات پڑھنے والے کو بار بار پریشان کرتے ہیں۔
مس عالیہ وقتاً فوقتاً اسپتال میں امل سے ملتی رہیں۔ نتیجۃً دونوں میں یگانگت بڑھتی چلی گئی۔ ہر بار امل قرآن کی بعض آیات کے حوالے سے ذہن میں پیدا ہونے والے سوالات کرتی، عالیہ ان کے جواب دیتیں اور امل کو مطمئن کرنے کی کوشش کرتیں، اس طرح کچھ ہی عرصے کے بعد اسلام اور قرآن اپنی تمام تر خوبیوں کے ساتھ منقیٰ ہو کر امل کے سامنے آگیا اور اسے ہر اعتبار سے اس کے بارے میں شرح صدر حاصل ہوگیا۔ اب مرحلہ عملی طور پر کلمہ پڑھنے اور اسلام قبول کرنے کا آگیا، لیکن اس سلسلے میں سب سے بڑا خدشہ یہ تھا کہ اگر الحساقہ میں رہتے ہوئے امل اس کا اعلان کرتی ہے تو ایک ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوگا اور غالب امکان تھا کہ اس کا خاندان اسے جان سے مار دے گا۔ چنانچہ طے پایا کہ وہ حماہ کو ہجرت کر جائے گی، وہاں کوئی با اثر خدا پرست مسلمان اسے پناہ میں لے لے گا اور وہیں وہ قبولِ اسلام کا اعلان کر دے گی۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More