تثلیث سے توحید تک

0

ہائی اسکول کی تعلیم ختم ہوئی تو میری شادی ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی میں ماڈلنگ کے پیشے سے منسلک ہوگئی۔ خدا نے مجھے اچھی شخصیت عطا کی تھی اور میں خوب محنت کرتی تھی، اس لئے میرا کاروبار خوب چمکا۔ پیسے کی ریل پیل ہوگئی، بہترین گاڑیاں غرض آسائش کا ہر سامان میسر تھا۔ حالت یہ تھی کہ بعض اوقات ایک جوتا خریدنے کیلئے میں ہوائی سفر کر کے دوسرے شہر جاتی تھی۔ اس دوران میں، میں ایک بیٹے اور بیٹی کی ماں بھی بن گئی، مگر سچی بات ہے کہ ہر طرح کے آرام و راحت کے باوجود دل مطمئن نہ تھا۔ بے سکونی اور اداسی جان کا گویا مستقل آزار بن گئی تھی اور زندگی میں کوئی زبردست خلا محسوس ہوتا تھا۔ نتیجہ یہ کہ میں نے ماڈلنگ کا پیشہ ترک کر دیا، دوبارہ مذہبی زندگی اختیار کرلی اور مختلف تعلیمی اداروں میں مذہبی تبلیغ کی رضا کارانہ خدمات انجام دینے لگی۔ اس کے ساتھ ہی میں نے مزید تعلیم کیلئے یونیورسٹی میں داخلہ لے لیا۔ خیال تھا کہ اس بہانے شاید روح کچھ سکون ملے گا۔ اس وقت میری عمر تیس سال تھی۔
اسے خوش قسمتی ہی کہئے کہ مجھے ایک ایسی کلاس میں داخلہ مل گیا، جس میں سیاہ فام اور ایشیائی طالب علموں کی خاصی بڑی تعداد تھی۔ بڑی پریشان ہوئی، مگر اب کیا ہو سکتا تھا۔ مزید گھٹن یہ دیکھ کر محسوس ہوئی کہ ان میں خاصے لوگ مسلمان تھے اور مجھے مسلمانوں سے سخت نفرت تھی۔ میرے نزدیک عام پورپین آبادی کی طرح اسلام وحشت و جہالت کا مذہب تھا اور مسلمان غیر مذہب، عیاش، عورتوں پر ظلم کرنے والے اور اپنے مخالفوں کو زندہ جلا دینے والے لوگ تھے۔ امریکہ اور یورپ کے عام مصنّفین اور مورخین یہی کچھ لکھتے آ رہے ہیں۔ بہرحال شدید ذہنی کوفت کے ساتھ تعلیم شروع کی۔ پھر اپنے آپ کو سمجھایا کہ میں ایک مشزی ہوں، کیا عجب کہ خدا نے مجھے ان کافروں کے اصلاح کے لئے یہاں بھیجا ہو، اس لئے مجھے پریشان نہیں ہونا چاہئے۔
چنانچہ میں نے صورت حال کا جائزہ لینا شروع کیا، تو حیرت میں مبتلا ہوگئی کہ مسلمان طالب علموں کا رویّہ دیگر سیاہ فام نوجوانوں سے بالکل مختلف تھا۔ وہ شائستہ، مہذب اور با وقار تھے۔ وہ عام امریکی نوجوانوں کے بر عکس نہ لڑکیوں سے بے تکلف ہونا پسند کرتے، نہ آوارگی اور عیش پسندی کے رسیا تھے۔ میں تبلیغی جذبے کے تحت ان سے بات کرتی، ان کے سامنے عیسائیت کی خوبیاں بیان کرتی تو وہ بڑے وقار اور احترام سے ملتے اور بحث میں الجھنے کے بجائے مسکرا کر خاموش ہو جاتے۔
میں نے اپنی کوششوں کو یوں بیکار جاتے دیکھا تو سوچا کہ اسلام کا مطالعہ کرنا چاہئے، تاکہ اس کے نقائص اور تضادات سے آگاہ ہو کر مسلمان طالب علموں کو زچ کر سکوں، مگر دل کے گوشے میں یہ احساس بھی تھا کہ عیسائی پادری مضمون نگار اور مورخ تو مسلمانوں کو وحشی، گنوار، جاہل اور نہ جانے کن کن برائیوں کا مرقع بتاتے ہیں، لیکن امریکی معاشرے میں پلنے بڑھنے والے ان سیاہ فام مسلمان نوجوانوں میں تو ایسی کوئی برائی نظر نہیں آتی، بلکہ یہ باقی سب طلبہ سے مختلف و منفرد پاکیزہ رویے کے حامل ہیں، پھر کیوں نہ میں خود اسلام کا مطالعہ کروں اور حقیقت حال سے آگاہی حاصل کروں۔
چنانچہ اس مقصد کی خاطر میں نے سب سے پہلے قرآن کا انگریزی ترجمہ پڑھنا شروع کیا اور میری حیرت کی انتہا نہ رہی کہ یہ کتاب دل کے ساتھ ساتھ دماغ کو بھی اپیل کرتی ہے۔ عیسائیت پر غور وفکر کے دوران اور بائبل کے مطالعے کے نتیجے میں ذہن میں کتنے ہی سوال پیدا ہوتے تھے، مگر کسی پادری یا دانشور کے پاس ان کا کوئی جواب نہ تھا اور یہی تشنگی روح کے لئے مستقل روگ بن گئی تھی۔ مگر قرآن پڑھا تو ان سارے سوالوں کے ایسے جواب مل گئے جو عقل اور شعور کے عین مطابق تھے۔ مزید اطمینان کے لئے اپنے کلاس فیلو مسلمان نوجوانوں سے گفتگو ئیں کیں، تاریخ اسلام کا مطالعہ کیا تو اندازہ ہوا کہ میں اب تک اندھیروں میں بھٹک رہی تھی۔ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں میرا نقطہ نظر صریحاً بے انصافی اور جہالت پر مبنی تھا۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More