معارف القرآن

0

معارف و مسائل
دوسری اصلاح یہ فرمائی کہ اگر کوئی ناواقف جاہل یا احکام دین سے غافل آدمی ایسا کر ہی بیٹھے تو اس لفظ سے حرمت ابدی شریعت اسلام میں نہیں ہوتی۔ لیکن اس کو کوھلی چھٹی بھی نہیں دی جاتی کہ ایسا لفظ کہنے کے بعد پھر بیوی سے پہلے کی طرح اختلاط و انتفاع کرتا رہے۔ بلکہ اس پر اس پر ایک جرمانہ کفارہ کا لگایا گیا کہ اگر پھر یہ اپنی بیوی سے رجوع ہونا چاہتا ہے اور سابق کی طرح بیوی سے انتفاع چاہتا ہے تو کفارہ ادا کرکے اپنے اس گناہ کی تلافی کرے، بغیر کفارہ ادا کئے بیوی حلال نہ ہوگی۔ اگلی آیت ’’والذین یظھرون‘‘ کا یہی مطلب ہے۔
یعودون لما قالوا… میں حرف لام کو عن کے معنی میں لیا گیا، یعنی رجوع کرتے ہیں وہ اپنے قول سے، اور حضرت ابن عباسؓ سے یعودون کی تفسیر یندمون بھی منقول ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ کہنے کے بعد وہ اپنے قول پر نادم ہوجائیں اور پھر بیوی سے اختلاط کرنا چاہیں۔ (مظہری)
اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کفارہ کا وجوب بیوی کے ساتھ اختلاط حلال ہونے کی غرض سے ہے، اس کے بغیرحلال نہیں، خود ظہار اس کفارے کی علت نہیں، بلکہ ظہار کرنا ایک گناہ ہے، جس کا کفارہ توبہ و استغفار ہے، جس کی طرف آیت کے آخر میں اشارہ کردیا گیا۔اس لئے کوئی شخص ظہار کر بیٹھے اور اب بیوی سے اختلاط نہیں رکھنا چاہتا تو کوئی کفارہ لازم نہیں، البتہ بیوی کی حق تلفی ناجائز ہے، اگر وہ مطالبہ کرے تو کفارہ ادا کرکے اختلاط کرنا یا پھر طلاق دے کر آزاد کرنا واجب ہے، اگر یہ شخص خود نہ کرے تو بیوی حاکمِ اسلام کی طرف مراجعت کرکے شوہر کو اس مجبور کر سکتی ہے۔ یہ سب مسائل کتب فقہ میں مفصل لکھے گئے ہیں۔ (جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More