زبان سے فیض جاری ہوگیا

0

جب حضرت سری سقطیؒ نے حضرت جنید بغدادیؒ کے بارے میں پیش گوئی کی تھی، حضرت جنیدؒ اس وقت کو یاد کر کے اکثر رویا کرتے تھے، جب کوئی شخص رونے کا سبب پوچھتا تو آپؒ نہایت رقت آمیز لہجے میں فرماتے:
’’پیرو مرشد نے فرمایا تھا کہ میری زبان سے فیض جاری ہوگا۔ کاش! حضرت شیخ میرے دل کے بارے میں یہی ارشاد فرما دیتے۔‘‘
یہ حضرت جنید بغدادیؒ کا انکسار تھا، ورنہ رب تعالیٰ نے آپؒ کے قلب اور زبان دونوں سے اپنا فیض جاری کیا تھا۔
کچھ دن بعد ایک اور موقع پر حضرت سری سقطیؒ نے جنید بغدادیؒ سے پوچھا تھا: ’’فرزند! مجھے بتاؤ کہ خدا کا شکر کس طرح ادا کیا جائے؟‘‘
جواب میں حضرت جنید بغدادیؒ نے عرض کیا:
’’خدا کی نعمتوں سے اس طرح فائدہ اٹھانا کہ معصیت (گناہ) کے کسی کام میں ان سے مدد نہ لی جائے، اسی کا نام شکر ہے۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ کا جواب سن کر حضرت سری سقطیؒ بے اختیار ہوگئے تھے اور نہایت محبت آمیز لہجے میں فرمایا تھا:
’’فرزند! تمہیں یہ باتیں کہاں سے معلوم ہوئیں؟‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نے جذبہ عقیدت سے سرشار ہو کر عرض کیا: ’’آپ کی صحبت سے۔‘‘
یہ سن کر حضرت سری سقطیؒ نے بھانجے کو گلے سے لگا لیا اور پیار کرتے ہوئے فرمایا: ’’خدایا! میں جنید کیلئے تجھ سے تیری نعمتوں کا سوال کرتا ہوں، تُو اس کے علم میں اضافہ فرما۔‘‘
الغرض شفیق و مہربان ماموں کی توجہ اور مداخلت سے حضرت جنید بغدادیؒ نے باپ کی شیشے کی دکان چھوڑ دی اور مکتب جانا شروع کر دیا۔ مکتب سے واپس آنے کے بعد آپؒ حضرت سری سقطیؒ کی خدمت میں حاضر ہوتے اور اس عارف وقت کے وعظ و نصیحت کو بہت غور سے سنتے۔ حضرت سری سقطیؒ کا اندازِ تعلیم اور طریقہ تربیت نہایت مؤثر اور دلکش تھا۔
ایک دن حضرت جنید بغدادیؒ ماموں کی خدمت میں حاضر ہوئے، انہیں دیکھتے ہی حضرت سری سقطیؒ نے فرمایا: ’’آؤ بیٹا جنید! میں تمہارا ہی انتظار کر رہا تھا۔‘‘
انتہائی نو عمری کے باوجود حضرت جنید بغدادیؒ نے سر تسلیم خم کرتے ہوئے کہا: ’’شیخ! میں حاضر ہوں، حکم دیجئے۔‘‘
بھانجے کے اس طرزِ عمل کو دیکھ کر حضرت سری سقطیؒ کے چہرے پر ایک عجیب سا رنگ اُبھر آیا، پھر نہایت والہانہ انداز میں فرمایا: ’’میرا ایک کام کرو۔‘‘
حضرت جنید بغدادیؒ نہایت ذوق و شوق کے ساتھ خانقاہ سے اٹھے اور وہ کام کر کے واپس آگئے۔
حضرت سری سقطیؒ نے اپنے پیرہن کی جیب سے تہہ کیا ہوا ایک کاغذ نکالا اور بھانجے کی طرف بڑھاتے ہوئے فرمایا ’’جنید! تم نے میرا کام بہت مہارت اور تیزی کے ساتھ انجام دیا ہے، اس لئے یہ تمہارا انعام ہے۔‘‘ حضرت جنید بغدادیؒ نے وہ کاغذ لے لیا اور اسے کھول کر پڑھنے لگے، کاغذ پر تحریر تھا۔
’’میں نے صحرا میں ایک شتربان کو دیکھا جو نہایت پُر سوز آواز میں یہ اشعار گا رہا تھا۔
’’میں روتا ہوں اور جانتے بھی ہو کہ میں کیوں روتا ہوں۔
اس خوف سے روتا ہوں کہ کہیں تُو مجھے فراق میں مبتلا نہ کر دے۔
اور میری اُمیدیں قطع کرکے مجھے تنہا نہ چھوڑ دے۔‘‘
یہ نصیحت کا عجیب انداز تھا، جس سے متاثر ہو کر حضرت جنید بغدادیؒ بھی رونے لگے اور پھر اپنے محترم ماموں سے لپٹ کر عرض کرنے لگے ’’اگر یہ کلام میرے لئے ہے تو بس اتنا سمجھ لیجئے کہ میں اس در کو چھوڑ کر کہاں جاسکتا ہوں؟‘‘
بھانجے کا جواب سن کر حضرت سری سقطیؒ کے چہرے پر مسرت و شادمانی کا غیر معمولی رنگ اُبھر آیا۔ آپؒ حضرت جنیدؒ کے دل کو آزمانا چاہتے تھے اور اس دل میں محبت و ایفائے عہد کی پوری صلاحیت موجود تھی۔
حضرت جنیدؒ کی اسی فرماں برداری نے آپؒ کو ماموں کی نظر میں اس قدر محبوب بنا دیا کہ حضرت سری سقطیؒ ساری دنیا کی بات ٹال سکتے تھے، مگر جب حضرت جنیدؒ کسی خواہش کا اظہار کرتے تو یہ ممکن نہ تھا کہ ان کا سوال رد کردیا جاتا۔ یہ اسی زمانے کا واقعہ ہے کہ جب حضرت جنید بغدادیؒ مکتب میں ابتدائی تعلیم حاصل کر رہے تھے۔ ایک دن مدرسے سے گھر آئے تو اپنے والد محترم جناب محمد کو انتہائی غمزدہ حالت میں دیکھا۔ حساس دل رکھتے تھے، اس لئے باپ کو ملول دیکھ کر خود بھی مضطرب ہوگئے۔(جاری ہے)
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More