ڈاکٹر فرمان فتحپوری
شاہ دلگیر نے قمر زمانی کو خط 4 جون کو ڈالا تھا۔ قمر زمانی کی طرف سے جواب میں دیر ہوئی تو ایک ہفتہ انتظار کر کے دوسرا خط لکھا۔
11 جون
پیاری قمر!
خدا کی قسم آپ کی محبت دیکھ لی۔ یاں جان پر بنی ہوئی ہے اور آپ ہیں کہ جواب تک نہیں دیتیں۔
ظالم یہ محبت کا تو دستور نہیں ہے
میں اب بھی شکایت نہ کرتا۔ اگر آپ وعدہ نہ کرتیں کہ جلد جواب دیتی رہوں گی۔ آہ۔ قلق اس کا ہے…
ہنسے گی دنیا یہ دیکھ کر ظالم کیا طریقہ ہے
کہ سچے چاہنے والوں کو جھوٹا آسرا دینا
ماہ مئی گزرگیا۔ جون بھی گزرا جارہا ہے۔ ہائے پھر کون سا وقت آئے گا۔ ’’ایک جگہ بیٹھ کر باتیں کریں گے‘‘۔
’’شوال کے پہلے ہفتے میں‘‘۔ آہ، اس وقت تک کون زندہ رہے گا۔ سنتا ہوں رمضان المبارک میں مرنے والوں کو شہادت کا درجہ ملتا ہے۔
اچھا رمضان شریف کی 26 تاریخ ابھی سے نوٹ کرلیجئے۔ دیکھنا ہے کون سچا نکلتا ہے۔
مجھ سے آپ خفا نہیں، لیکن غریب ’’نقاد‘‘ سے خفگی کا سبب تو بتائیے کیا ہے۔ دوسرے نمبر کی رسید تک نہیں۔ اس پر اظہار رائے…؟
’’حسن‘‘ اب تک عنایت ہوتا ہے، غزل اب تک ملتی ہے اور مضامین کا کیا ذکر۔ آپ کی قسم تیسرے نمبر کی اشاعت محض آپ کے موعودہ مضمون کے انتظار کی وجہ سے رکی ہوئی ہے۔ ورنہ اب تک وہ شائع ہو جاتا۔ تیسرا نمبر آپ سے خالی رہا تو کیا ہوگا۔ آپ کو اتنا بھی خیال نہیں۔ اسی سے میں یہ سمجھنے پر مجبور ہوں کہ مجھ بد نصیب کے ساتھ آپ ’’نقاد‘‘ سے بھی خفا ہیں جو، اب میرا نہیں صرف آپ کا ہے۔
خدا کے لئے ’’حسن‘‘ یا اور کوئی مضمون جلد بہت جلد بھیج دیجئے۔ ورنہ تمہاری جان کی قسم زہر کھالوں گا۔ پھر نہ رونا۔
’’دلگیر‘‘
11 جون کو دلگیر نے یہ خط ڈالا۔ ادھر سے 13 جون کو قمر زمانی نے ان کے خط مرقومہ 4 جون کا جواب لکھا۔
13 جون17ء
پیارے دلگیر!
لیجئے اب تو خوش ہوں ’’صاحب‘‘ کہنے کا اتنا رنج…
بت کہہ دیا منہ سے وہ اب بولتے نہیں
اتنی سی بات کا انہیں اتتا ملال ہے
کیا آپ میرے ’’صاحب‘‘ نہیں۔ میں آپ کو کس طرح یقین دلاؤں کہ آپ کی تکلیف ملال اور رنج نومیدی سے میرے اوپر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ میں تو لکھتے لکھتے تھک گئی ہوں۔ آپ نے میری باتوں کا جواب ٹال دیا۔ خیر میں جان گئی جو بات ہے۔ لیکن صدمہ اس بات کا ہے کہ آپ کے انداز تحریر سے کچھ بے اعتباری سی پیدا تھی۔ جس کو میں اس وقت تک ٹالنے کی کوشش کر رہی ہوں۔ خیر۔ اگر آپ کی بدظنی اور مایوسی آپ کے قابو نہیں تو خدا کی مرضی، میں کیا کر سکتی ہوں۔ افسوس ہے آپ کی محبتِ محتاط کی ہوشیاریاں میری سمجھ سے اس طرح باہر ہیں جس طرح ایک عورت کی شگفتگی معصوم، مرد ہوشیار کے نزدیک کوئی معنی نہیں رکھتی۔
یہ آپ یقین رکھئے، مجھ سے کبھی وہ بات نہیں ہو سکتی جو خود میرے نزدیک بری ہے۔ آپ کی مایوسیوں کا علاج میرے پاس سوائے اس کے اور کوئی نہیں تھا۔ جو ظاہر کر چکی ہوں۔ اگر آپ کو وہ منظور نہیں تو جانے دیجئے۔ جب آپ ان معمولی باتوں کا جواب دینے سے گریز کرتے ہیں جو لازمی طور سے پوچھی جاتی ہیں تو پھر نتیجہ معلوم؟
جی ہاں ’’حسن‘‘ ہنوز نامکمل ہے اور شاید رہے گا۔ کیوں کہ تکیمل ’’حسن‘‘ کے لئے التفات عشق ضروری ہے اور وہ مجھے حاصل نہیں۔
بد نصیب
’’قمر‘‘
شاہ دلگیر نے قمر زمانی کا خط پاتے ہی اس کے جواب میں انہیں لکھا۔
15جون 17ء
جان دلگیر!
اللہ کا شکر ہے آپ کا خط ملا۔ دل کا بار ہلکا ہوا۔ خدا آپ کا ’’صاحب‘‘ مجھے کرے۔ پھر کوئی شکایت نہ ہوگی۔ میں آپ کی طرف سے بے اعتباری کروں قیامت تک ممکن نہیں۔ مجھ دوانے پاس ہوشیاری و احتیاط کہاں۔
دل دیا دل ہائے نامرادی مری
یہ صرف آپ کا خیال ہی خیال ہے۔ یہ آپ بھی یقین رکھئے کہ مجھ سے کبھی وہ بات نہیں ہو سکتی، جو آپ کے نزدیک بری ہو
تم جس سے بدگمان ہو جس کا خیال تھا
وہ آرزو نہیں ہے دل بے قرار کی
استغفراللہ، میرے و ہم و گمان میں بھی وہ بات نہ تھی، جس کا آپ کو خیال ہوا۔
کدھر خیال گیا کیا خیال کر بیٹھیں
ہائے، آپ اب تک نہیں جانتیں کہ دلگیر آپ سے کیا چاہتا ہے۔ جن وجوہ سے میں مایوس ہوں، ان کو میری بدقسمتی کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔ سچ ہے خدا کی مرضی۔ میں آپ کیا کر سکتی ہیں…
کیا شمع کے نہیں ہیں ہوا خواہ اہل بزم
ہو غم ہی جانگداز تو غمخوار کیا کریں
کیسے ممکن ہے کہ وہ مجھے منظور نہ ہو جو آپ کو منظور ہے۔ اب تو جان بھی بغیر آپ کی مرضی کے نہیں دے سکتا۔
خدا جانے کیوں، اس وقت میں نے ٹال دیا تھا۔ لیکن اس سے مقصود آپ کو خفا کرنا نہ تھا۔ خیر، اب آپ معمول اور غیر معمولی باتیں شوق سے پوچھئے۔ میں ہر ایک بات کا جواب دوں گا اور پھر میری تقدیر۔
نہیں، یہ بات تو نہیں کہ التفات عشق آپ کو حاصل نہیں۔ ہاں یہ ضرور ہے کہ میں التفات حسن کے قابل نہیں رہا۔
مایوس ازل
’’دلگیر‘‘۔
(جاری ہے)
٭٭٭٭٭
Prev Post
Next Post