چہ پدی، چہ پدی کا شوربا!

0

پڑوسی برادر ملک افغانستان پر امریکی چھتری تلے قائم کٹھ پتلی حکومت سے خود دارالحکومت کابل بھی سنبھالا نہیں جاتا۔ مگر اسے پاکستان میں پشتونوں پر ہونے والے ’’مظالم‘‘بے چین کئے رکھتے ہیں۔ موجودہ افغان صدر اشرف غنی کے پیشرو حامد کرزئی بھی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ حالانکہ موصوف طویل عرصے تک پاکستان کا نمک کھاتے رہے۔ مگر جب مسند اقتدار پر بیٹھے تو بھارت کی زبان بولنے لگے۔ اشرف غنی چونکہ امریکی کٹھ پتلی ہونے کے ساتھ وہیں کے تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ اس لئے وہ حامد کرزئی پر بھی سبقت لے گئے۔ پاکستان کے خلاف ان کی گیدڑ بھبکیوں کا سلسلہ اول روز سے جاری ہے۔ مگر جب سے امریکا اور افغان طالبان کے مابین براہ راست مذاکرات شروع ہوئے ہیں۔ اشرف غنی کی پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ہے۔ چند روز قبل انہوں نے افغانستان میں جاری بد امنی کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’جنگ کی کنجیاں اسلام آباد، راولپنڈی، کوئٹہ اور پاکستان کے دیگر شہروں میں ہیں‘‘۔ پھر جمعرات کو انہوں نے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کرتے ہوئے ٹوئٹ کیا ہے کہ ’’افغان حکومت کو خیبر پختون اور بلوچستان میں امن پسند مظاہرین اور سول کارکنوں کے خلاف ہونے والے تشدد پر شدید تحفظات ہیں‘‘۔ کٹھ پتلی افغان صدر کا اشارہ پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کی جانب تھا۔ اس لئے پی ٹی ایم کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ اشرف غنی کے اس ٹوئٹ پر پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے سخت رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کے معاملات میں کھلی مداخلت قرار دیا۔ شاہ محمود قریشی نے اشرف غنی کو صائب مشورہ دیا ہے کہ افغان صدر اپنے ملک کے اندرونی معاملات اور عوام کے لیے اقدامات کریں۔ جبکہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری، پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمان اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے بھی افغان صدر کی بیان بازی پر شدید تنقید کی ہے۔ سینیٹ میں افغان صدر کے اس ٹوئٹ پر مذمتی قرارداد بھی منظور کی گئی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ غیر ملکی حکومتوں نے پی ٹی ایم کی شکل میں پاکستان کے خلاف نئی سازش تیار کر لی ہے اور اس کے ذریعے ملک میں انتشار پھیلانے کی کوشش کی جا رہی ہیں۔ ٹویٹر کے علاوہ فیس بک پر بھی افغان حکومت کی جانب سے دنیا بھر کے سیاستدانوں سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ پاکستان میں پشتونوں پر ہونے والے ریاستی تشدد کا نوٹس لیں۔ افغان حکومت پہلے درپردہ اس تنظیم کی حمایت کرتی تھی۔ اسے عوامی پذیرائی دلانے کے لئے افغانستان میں قتل ہونے والے پشاور کے مغوی ایس پی طاہر داوڑ کی میت پاکستانی حکام کے بجائے پی ٹی ایم رہنمائوں کے حوالے کی گئی۔ اُس موقع پر افغان مذاکراتی ٹیم کی قیادت امتیاز وزیر نامی جو شخص کر رہا تھا۔ وہ افغان حکومت میں مشیر کی حیثیت سے پی ٹی ایم کے لئے کابل میں لابنگ کر رہا ہے۔ آستین کا یہ سانپ دو ہزار تیرہ کے الیکشن میں اے این پی کے ٹکٹ پر انتخابات میں بھی حصہ لے چکا ہے۔ پھر پی ٹی ایم کے رہنماؤں اور اراکین قومی اسمبلی محسن داوڑ اور علی وزیر نے نائب افغان سفیر سے ملاقات کی تھی۔ اس وقت بھی بہت سے محب وطن حلقوں نے اسے شک کی نگاہ سے دیکھا تھا۔ ان در پردہ کوششوں کے بعد اب افغان حکومت پشتون تحفظ موومنٹ کی کھل کر حمایت کرنے لگی ہے۔ یہ جماعت پشتونوں پر ہونے والے مبینہ ریاستی مظالم پر واویلا کرتی ہے اور اس نے ملکی سلامتی کے ضامن اداروں پر دشنام طرازی کو اپنا وتیرہ بنا رکھا ہے۔ جبکہ محب وطن پشتون نوجوانوں کو ریاست کے خلاف اکسانا بھی اس کے گویا فرض منصبی میں داخل ہے۔ پاکستان ایک جمہوری ملک ہونے کی حیثیت سے اپنے تمام شہریوں کو اظہارِ رائے کی مکمل آزادی دیتا ہے۔ پی ٹی ایم کو بھی غیر ملکی طاقتوں سے روابط کے باوجود جلسے جلوس کرنے کی اجازت حاصل ہے۔ بلکہ اس کے دو رہنما الیکشن لڑ کر اسمبلی میں بھی پہنچ چکے ہیں۔ مگر افغان حکام کے پیٹ میں جو مروڑ اٹھ رہے ہیں۔ اس کا سبب پشتونوں سے محبت نہیں، بلکہ پاکستان میں بغاوت و عدم استحکام پھیلانا ہے۔ اگر کابل حکومت کو پشتونوں کی اتنی ہی فکر ہوتی کہ وہ سرحد پار بسنے والے پشتونوں پر مبینہ تشدد اور ’’مظالم‘‘ کو رکوانے کے لئے عالمی رہنمائوں سے نوٹس لینے کی اپیل کر رہی ہے تو اس کے اپنے ملک میں آئے روز امریکی بمباری سے درجنوں پشتون بچے، عورتیں، بوڑھے اور عام شہری شہید ہو جاتے ہیں۔ اس پر تو کبھی کٹھ پتلی انتظامیہ کو اپنے آقا امریکا کے سامنے لب ہلانے کی جسارت نہیں ہوئی؟ افغان صدر کی پہلے بھی امریکی کٹھ پتلی سے زیادہ کوئی حیثیت نہیں تھی۔ ان کی حکومت کابل کے صدارتی محل تک محدود تھی۔ وہ نہ کسی بڑے افغان قبیلے کے سربراہ ہیں اور نہ ہی جہادی گروپ کے کمانڈر۔ ان کا اقتدار امریکا کا مرہون منت تھا۔ اب امریکا چونکہ افغانستان سے بوریا بستر گول کرنے جا رہا ہے۔ وہ اپنے کٹھ پتلی کی حیثیت کو سمجھتے ہوئے طالبان سے براہ راست خود مذاکرات کر رہا ہے۔ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کر کے وہ اپنا غم اس لئے غلط کرنا چاہتا ہے کہ ماضی میں طالبان کے پاکستان کے ساتھ بہت قریبی تعلقات رہے ہیں۔ جبکہ ماسکو کانفرنس میں بھی اس کٹھ پتلی حکومت کو چھوڑ کر تمام افغان دھڑوں نے شرکت کر کے اسے مزید تنہا کر دیا ہے۔ اب اس کی حیثیت پہلے بھی کم بلکہ زیرو ہو کر رہ گئی ہے۔ اس لئے ہمارے خیال میں پاکستانی قیادت کو اشرف غنی کے بیان کو زیادہ اہمیت دینے اور سنجیدہ لینے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ چہ پدی، چہ پدی کا شوربا!؟ اور پدی بھی وہ، جس کے آشیانے کے تار پود بکھرنے میں چند ہفتے یا مہینے رہ گئے ہیں۔ تاہم بڑی قربانیوں کے بعد قائم ہونے والے امن کو سبوتاژ کرنے کی سازش کرنے والے اندرونی عناصر پر کڑی نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ ٭
٭٭٭٭٭

Leave A Reply

Your email address will not be published.

This website uses cookies to improve your experience. We'll assume you're ok with this, but you can opt-out if you wish. Accept Read More